جانتے ہو ؟ (یعنی میرے فیصلوں کو جانتے ہو ) یا جو میرے ہاتھ میں اس پر قادر ہو؟ اور گنہگار کو فرمایا کہ جا میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا اور دوسرے کو کہا کہ اس کو آگ میں لے جاؤ۔ ‘‘ اس لیے میرے بھائی ! فتوے بازی سے باز آنا اپنے آپ کو جہنم سے بچانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((مَنْ أُفْتِیَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ إِثْمُہٗ عَلٰی مَنْ أَفْتَاہٗ۔))[1] ’’جو بغیر علم کے فتویٰ دے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے۔ ‘‘ اور فرمایا : ((مَنْ أُفْتِیَ بِفُتْیَا غَیْرِ ثَبَتَ فَإِنَّمَا عَلٰی مَنْ أَفْتَاہُ۔))[2] ’’جس نے ایسا فتویٰ دیا جو ثابت ہی نہیں ( قرآن و سنت میں ) تو اس کا گناہ مفتی پرہے۔ ‘‘ اس لیے فتوے لگانے کی بجائے اس کو سمجھاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا : ((اَلْمُؤْمِنُ مِرْآۃُ الْمُؤْمِنِ۔))[3] ’’مومن مومن کا شیشہ ہوتا ہے۔‘‘ اس لیے بسا اوقات خود میں غلطی زیادہ ہوتی ہے وہ نظر نہیں ٓآتی اور دوسرے کی معمولی سی بھی نظر آجاتی ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے : ((یَبْصُرُ أَحَدُکُمُ الْقَذٰی فِی عَیْنِ أَخِیْہِ وَیَنْسِیْ الْجَذْعَ فِیْ عَیْنِہِ۔))[4] ’’تم کو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا بھی دکھائی دیتا ہے اور اپنی آنکھ میں شہتیر بھی |