Maktaba Wahhabi

150 - 180
وعظ (تبلیغ) کرتا ہے اس کا تیر نافذ ہوجاتا ہے۔ (یعنی لوگوں میں اثر کرتا ہے )‘‘ حتیٰ کہ جو عالم عمل نہیں کرتا اس کا علم بھی اس سے دور ہوجاتا ہے بقول علی رضی اللہ عنہ : ہَتْفُ الْعِلْمِ بِالْعَمَلِ فَإِنْ أَجَابَہَ وَإِلَّا ارْتَحَلْ ’’علم عمل کو فون کرتا ہے اگر عمل آجائے تو ٹھیک وگرنہ علم بھی رُخصت ہو جاتا ہے۔‘‘ اس لیے جو انسان تبلیغ کرے اس پر خود عمل کرنا حقیقت میں دعوت و تبلیغ کو چار چاند لگانا اور مطلوبہ دینی مقاصد کو پورا کرنے کی رسید حاصل کرنا ہے وگرنہ بصورت دیگر عذاب الٰہی کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَتَیْتُ لَیْلَۃً أُسْرِیَ بِیْ عَلٰی قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاہُہُمْ بِمَقَارِیْضَ مِن نَّارٍ کُلَّمَا قُرِضَتْ وُفَّتْ فَقُلْتُ یَا جِبْرِیْلُ مَنْ ھٰؤُلَائِ؟ قَالَ خُطَبَائُ أُمَّتِکَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ مَالًا یَفْعَلُوْنَ وَیَقْرَئُ وْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَلَا یَعْمَلُوْنَ بِہِ۔)) [1] ’’میں معراج کی رات ایک ایسی قوم پر آیا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے جب بھی کاٹے جاتے پھر وہ ٹھیک ہو جاتے (ایسے ہی عمل رہتا) تو میں نے کہااے جبریل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے کہا یہ آپ کی اُمت کے خطباء ہیں جو ایسی باتیں لوگوں کو بتلاتے ہیں جو خود نہیں کرتے اور قرآن مجید کو پڑھاتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ ‘‘ تو اس حدیث میں علماء و قراء و مدرسین ہر ایک کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی محنتیں ثمر آور کیوں نہیں ہوتیں اس لیے کہ وہ داڑھی کا بچوں کو کیسے کہیں خود منافقت کرتا ہے اس کو کٹواتا ہے وہ لڑکوں کو طلباء کو کیسے ٹخنوں سے اوپر شلوار کرنے کو کہے خود اس کی عورتوں کی طرح زمین
Flag Counter