Maktaba Wahhabi

149 - 180
چنانچہ اسی جلانے کی تفصیل و ہیئت اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کی ہے : ((رَأَیْتُ لَیْلَۃً أُسْرِیَ بِیْ رِجَالًا تَقْرُضُ شِفَاہَہُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَّارٍ فَقُلْتُ مَنْ ہَؤُلَآئِ یَا جِبْرِیْلُ؟ فَقَالَ: اَلْخُطَبَائُ مِنْ أُمَّتِکَ یَأْمُرُوْنَ النَّاسِ بِالْبِرِّ وَیَنْسَوْنَ أَنْفُسَہُمْ وَہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ۔)) ’’میں نے معراج کی رات میں دیکھا کہ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا یہ کون لوگ ہیں ؟ اے جبریل علیہ السلام تو اس نے جواب دیا کہ یہ آپ کی اُمت کے خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کاحکم دیتے تھے ور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب پڑھتے تھے کیا پس اتنی بھی ان کو سمجھ نہیں ؟ اور اللہ جل شانہ نے بھی قرآن مجید میں فرمایا ہے : {اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْن o } (البقرۃ: 44) کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو ؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجود یہ کہ تم کتاب پڑھتے ہو کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔ ‘‘ مذکورہ حدیث (جو کہ اس آیت کی تفسیر نبوی تھی ) اور اس آیت سے انتہائی ڈانٹ اور زجر ہے ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کو نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور خود عمل سے کورے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان وکلام میں تاثیر نہیں اور ان کے بلند باگ خطبے غنا انگیز تقریریں، شعلہ نما لیکچر ومحاضرات لوگوں پر اثر نہیں کرتے۔ اس لیے کہ اس کا خود عمل نہیں ہوتا اور محنت ضائع ہو جاتی ہے کسی نے کیا خوب کہا تھا : مَنَ وَعَظَ بِکَلَامِہِ ضَاعَ سِہَامُہٗ وَمَنَ وَعَظَ بِعَمَلِہِ نَفَذَ سِہَامُہٗ ’’جو شخص کلام سے وعظ کرتا ہے اس کا تیر ضائع ہو جاتا ہے اور جو شخص عمل سے
Flag Counter