اس سے ڈرایا جائے وہاں نیکی کو عملاً کرکے دکھانا اور برائی سے عملاً دور ہونا دعوتی میدان کی کامیابی کی کلید ہے کیونکہ اگر داعی کا اپنا عمل نہیں تو وہ کسی کوکیسے عمل پر مجبور کر سکتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : {یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْن o } (الصف:2) ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ ‘‘ منع کرنے کی علت بھی بیان کی : {کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْن o } (الصف:3) ’’تم جو کرتے نہیں اس کا حکم دینا اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ناپسند ہے۔ ‘‘ اصل میں اس سورت کا سبب نزول بھی یہ تھا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے کہہ رہے تھے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے احب الاعمال (سب سے پسندیدہ اعمال) پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے تو پوچھنے کی جرأت کوئی بھی نہیں کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمادی۔[1] اور جب ان کو وہ اعمال بتلائے گئے تو وہ پھر سست ہو گئے تو ان آیات میں ان کو توبیخ کی جا رہی ہے کہ خیر کی بات جو کہہ رہے ہو وہ کرتے کیوں نہیں ہو ؟جو بات منہ سے نکالتے ہو اسے پورا کیوں نہیں کرتے ؟ جو زبان سے کہتے ہو اس کی پاسداری کیوں نہیں کرتے ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عالم کی (جو لوگوں کو تونیکی کا حکم کرتا ہے لیکن خود عمل نہیں کرتا) مثال یوں بیان کی ہے : ((مَثَلُ الْعَالِمِ الَّذِیْ یُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَیْرَ وَیُنْسِیْ نَفْسَہٗ کَمَثَلِ السِّرَاجِ یُضِیئُ لِلنَّاسِ وَیُحَرِّقُ نَفْسَہٗ۔))[2] ’’وہ عالم جو لوگوں کو خیر و بھلائی سکھلاتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے وہ اس چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کے لیے تو روشنی کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو جلاتا ہے۔ ‘‘ |