پر ہوتی ہے اسی لیے ہلال بن اُمیہ نے کہا تھا : ((طَلَبُ الْعِلْمِ شَدِیْدٌ وَحِفْظُہٗ أَشَدُّ مِنْ طَلَبِہِ وَالْعَمَلُ بِہِ أَشَدُّ مِنْ حِفْظِہِ وَالسَّلَامَۃُ مِنْہُ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَلِ بِہِ۔)) [1] ’’علم کو سیکھنا بہت مشکل ہے اور اس کا حفظ کرنا اس کی طلب سے بھی مشکل ہے اور ہر عمل اس کے حفظ سے بھی زیادہ سخت ہے اور اس کے وبال سے سلامتی اس کے عمل کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ ‘‘ اور زبید الیمامی کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک کلمہ نے مجھے بیس سال تک چپ کروائے رکھا وہ کلمہ یہ تھا : ((مَنْ کَاَن کَلَامُہٗ لَا یُوَافِقُ فِعْلَہٗ فَإِنَّمَا یُوَبِّخُ نَفْسَہٗ۔)) [2] ’’جس کی کلام فعل کے موافق نہ ہو وہ اپنے آپ کو توبیخ کرتا ہے۔ ‘‘ اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا : یَا أَیُّہَاالرَّجُلَ الْمُعَلِّمَ غَیْرَہٗ ہَلَّا لِنَفْسِکَ کَانَ ذَا التَّعْلِیْمٗ تَصِفُ الدَّوَائَ لِذِی السِّقَامِ وَذِیْ الضَّنَا کَیْمَا یَصِحُّ بِہِ وَأَنْتَ سَقِیْمٌ اِبْدَأْ بِنَفْسِکَ فَإِنَّہَا عَنْ غَیِّہَا فَإِذَا انْتَھَتْ عَنْہُ فَأَنْتَ حَکِیْمٗ لَا تَنْہَ عَنْ خُلُقٍ وَتَأْتِیَ مِثْلَہٗ عَارٌ عَلَیْکَ إِذَا فَعَلْتَ عَظِیْمٗ ’’اے لوگوں کو سکھلانے والے ! کیوں نہیں اپنے آپ کو سکھلاتا تو بیماری اور لاغری کی دواء تو بیان کرتا ہے وہ کیسے صحیح ہو جبکہ تم خود مریض ہو اس لیے اپنے آپ سے شروع کر اور اپنے نفس کو اس کی ضلالت سے روک جب تو نے اس کو روک لیا تو پھر تو حکیم(حکمت داں) بن جائے گا۔ ایسی بات سے نہ روک جو خود کرتے ہو اور اگر خود عمل نہ کرو اور لوگوں کو اس کی تلقین کر وتو یہ بہت بڑا گناہ ہے |