’’جو شخص تعلیم حاصل کرے پھر اس کو بیان نہ کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی مال جمع کرے پھر خرچ نہ کرے۔ ‘‘ تو جس طرح مال کو مجمع کرنا بغیر خرچ کرنے کے اس کو دنیا میں بخیل اور آخرت میں عذاب الٰہی کا مستحق بنا سکتا ہے اسی طرح جو کچھ انسان کو آتا ہو اس کو بیان کرنا ضروری ہے اور یہ ہی ہماری مسلمان ہونے کے ناطے سے ذمہ داری ہے اس لیے علم بیان کرنے میں نیکی آئے گی اور برائی منع نہ کرنے میں برائی آئے گی۔ اور اگر برائی نظر آرہی ہو پھر انسان منع نہ کرے تو گویا اس کا ایک توایمان ضعیف ہے اور دوسرا اگر اس نے برائی کے بارے سنا ہے لیکن اس کے بارے غیرت کو ظاہر نہیں کیا بلکہ راضی ہوا ہے تو وہ گویا اس برائی میں حاضر تھا اور اس نے اس کو روکا نہیں اس کو اسی طرح گناہ ہوگا جس طرح جو برائی کے پاس ہو اور اسے روکتا نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((إِذَا أُعْمِلَتِ الْخَطِیْئَۃُ فِی الْأَرْضِ کَانَ مَنْ شَہِدَہَا فَکَرِہَہَا کَمَنْ غَابَ عَنْہَا وَمَنْ غَابَ عَنْہَا فَرِضِیَہَا کَانَ کَمَنْ شَہِدَہَا۔)) [1] ’’اگر زمین میں کوئی برائی کی جائے تو جو حاضر ہو، اسے مکروہ جانے تو گویا وہ ایسے ہے جیساکہ وہ اس برائی کے پاس تھا ہی نہیں اور جو برائی کے پاس نہ ہو لیکن اس برائی پر راضی ہو تو وہ گویا ایسے ہے جیسے وہ برائی میں حاضر تھا۔ ‘‘ اس لیے نیکی کا حکم کرنا اور برائی کو روکنا اور اسے انتہائی مکروہ جاننا ضروری ہے وگرنہ اس کا نتیجہ عذاب کی شکل میں دنیا میں ہی اتر سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ أَوْشَکَ أَنْ یَعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ۔)) [2] |