Maktaba Wahhabi

139 - 180
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہْیُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِیْ أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَۃٌ وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَ وَالْعَظَمَ عَنِ الطَّرِیْقِ لَکَ صَدَقَۃٌ وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ دَلْوِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ۔))[1] ’’(اے ابو ذر!) تیرا اپنے بھائی کے سامنے (خوشی سے اس کو دیکھ کر ) تبسم کرنا تیرے لیے صدقہ ہے اور تیرا نیکی کا حکم کرنا اور تیرا برائی سے منع کرنا تیرے لیے صدقہ ہے اور گمراہی کی زمین میں (بدعات و خرافات میں ) تیرا کسی آدمی کو سیدھا راستہ دکھانا تیرے لیے صدقہ ہے اور راستے سے پتھر اور کانٹا اور ہڈی کو دور کرنا تیرے لیے صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں انڈیلنا (یعنی اس کا تعاون کرنا ) تیرے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘ لیکن آج بجائے تبسم کرنے کے ہم غافلوں کی طرح قہقہے مارتے ہیں۔ حالانکہ صدقہ تبسم میں سے ہے اور ہم بجائے صدقہ کرنے کے اپنے بھائیوں پر ہنستے ہیں اور دکھ دیتے ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے تھے جیسا کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((وَکَانَ لَا یَضْحَکُ إِلَّا تَبَسُّمًا۔)) [2] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرمایا کرتے تھے مسکراتے تھے، قہقہے مار کر ہنستے نہیں تھے۔‘‘ جب بھی کلام کرتے تبسم فرمایا ((فداہ أبی أمی))اسی طرح نیکی کا حکم بھی نہیں کرتے بلکہ یا تو اپنی عزت کا خیال کرکے چپ رہتے ہیں یا طعنے دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن بندے کو کہیں گے :
Flag Counter