تَخْلِفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلُوْفٌ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہِ فَہُوَ مُوْمِنٌ وَ مَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہِ فَہُوَ مُوْمِنٌ وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہِ فَہُوَ مُوْمِنٌ لَیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْإِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ۔)) [1] ’’جس نبی کو اللہ تعالیٰ نے میر ی طرح کسی اُمت میں بھیجا اس کی اُمت سے اس کے حواری اور ساتھی تھے جو اس کی سنت کو لیتے اور اس کے حکم پر کاربند رہتے پھر اس کے بعد ایسے خلوف (نابلد) لوگ آئے جو وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے تھے جس کا حکم انھیں نہیں دیا جاتا تھا پس جو شخص ان کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے ساتھ زبان کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے ساتھ دل سے جہاد کر ے وہ مومن ہے۔ اس کے بعد (یعنی اگر وہ دل سے بھی اس کو برا نہیں جانتا ) ایمان رائی کے دانے کے برابر نہیں ہوتا۔ ‘‘ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے کہ جب اس کو انسان استعمال کرے تو اس پر فتنے کے بادل اُٹھ جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فِتْنَۃُ الرَّجُلِ فِیْ أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَنَفْسِہِ وَوَلَدِہِ وَجَارِہُ یُکَفِّرُہَا الصِّیَامُ وَالصَّلَاۃُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔)) [2] ’’آدمی کا فتنہ اپنے اہل اور مال اور نفس اور اولاد پڑوسی میں ہے اور اس کا کفارہ روزے رکھنا، نماز پڑھنا اور صدقہ دینا اور نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا ہے۔‘‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر صرف فتنے کا کفارہ ہی نہیں بلکہ یہ صدقہ بھی لکھا جاتا ہے |