Maktaba Wahhabi

137 - 492
کا اس پر اجماع ہے کہ عدت کے ختم ہو نے تک رجعی طلاق والی عورت بیوی شمار ہو گی۔[1] تو جب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ ابھی تک آپ کی بیوی ہی ہے تو آپ کے علم میں ہو نا چاہئے کہ علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ کسی بھی آزاد شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ چار سے زیادہ بیویاں رکھے(یعنی ایک ہی وقت میں وہ سب اس کے نکاح میں ہوں)اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث میں بھی ملتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ: "غیلان بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ان میں سے چار رکھ لو۔"[2] مندرجہ بالا سطور سے یہ واضح ہوا کہ مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ طلاق رجعی کی حالت میں پانچویں سے شادی کرے اس لیے کہ اس طرح وہ پانچ عورتوں کو جمع کر لےگا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آئمہ اربعہ اور سارے اہل سنت علماء کا قولی اور عملی اجماع ہے کہ کسی بھی مرد کے لیے اپنے نکاح میں چار بیویوں سے زیادہ رکھنا جائز نہیں صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے جلیل القدر تابعی عبیدہ سلمانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔کہ انھوں نے فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کسی بھی چیز پر اس طرح متفق نہیں ہو ئے جس طرح کہ ان کا چوتھی کی عدت میں پانچویں سے نکاح کی ممانعت اور بہن کی عدت میں دوسری بہن سے نکاح کی ممانعت "پر اتفاق ہے۔"[3] پس جو بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے چار بیویوں سے زیادہ جمع کرتا ہے اس نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اہل سنت والجماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔[4] اور اگر ایسا ہو جا ئے تو عقد نکاح باطل ہو گا اور آپ پر واجب ہے کہ آپ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں حتی کہ طلاق شدہ بیوی کی عدت ختم ہو جائے اور اگر آپ نے اس پانچویں سے دخول بھی کر لیا ہے تو پھر آپ اسے مہر مثل
Flag Counter