لگے تو تم مومن ہو۔ ‘‘ اور پھر عمومی خبر دی : ((مَنْ سَرَّتْہٗ حَسَنُتُہٗ وَسَائَ تَہٗ سَیِّئَتُہٗ فَہُوَ مُوْمِنٌ۔ ))[1] ’’جس شخص کو اس کی نیکی خوش کرے اور برائی ناخوش کرے وہ مومن ہے۔ ‘‘ نیکی و برائی کا امتیاز اسی وقت ہی حاصل ہوتا ہے جب قرآن مجید پر پورا ایمان ہو اور دنیا سے بے رغبتی ہو اور قبر کی یاد ہر وقت ہو اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے کندھے پر اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھ کر اس نسخہ کیمیا( ایمان کی طرف لانے والا) کو بیان کیا تھا : ((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبُیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُوْرِ۔)) [2] ’’دنیا میں اس طرح زندگی گزارو جیسا کہ تم غریب ہو (غریب الوطن ہو) یا پھر مسافر سمجھو اور اپنے آپ کو قبروں والوں میں شمار کرو۔ ‘‘ (یعنی حساب و کتاب کے لیے ہر وقت تیار رہو ) اس لیے کہ یہ دنیا عارضی وفانی ہے بقول شاعر: دنیا جی لگانے کی جگہ نہیں ہے یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے نہ دنیا نے موت کے بعد ساتھ دینا ہے نہ مال و متاع نے اور نہ ہی رشتہ داروں نے جیساکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((إِذَا مَاتَ ابْنُ آدَمَ انْقَطَعَ عَمَلُہٗ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یَنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ۔)) [3] |