Maktaba Wahhabi

127 - 180
جو کہ قرآن مجید پر عدم یقین اور قیامت کی نشانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((أَوَّلُ شَیْ ئٍ یُرْفَعُ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ الْخُشُوْعُ حَتّٰی لَا تَرٰی فِیْہَا خَاشِعًا))[1] ’’اس اُمت سے سب سے پہلے خشوع اُٹھ جائے گا حتیٰ کہ کوئی بھی خاشع (خشوع والا) تم نہیں پاؤ گے۔ ‘‘ اس لیے میرے بھائی ! نماز کو ایسے پڑھو جیسے یہ زندگی کی آخری نماز ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا تھا : ((صَلِّ صَلَاہَ مُوَدَّع کَأَنَّکَ تَرَاہٗ فَإِنْ کُنْتَ لَا تَرَاہٗ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ وََأَیْأَسْ مِمَّا فِیْ أَیْدِی النَّاس تَعْشِ غَنَیًّا وَإِیَّاکَ وَمَا یَعْتَذِرُ مِنْہُ۔))[2] ’’نماز ایسے پڑھ گویا کہ تو الوداعی نماز پڑھ رہے ہو اور تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم نہیں دیکھ رہے تو وہ تمھیں دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں (مال و دولت )ا س سے نااُمید ہو جا (اللہ تعالیٰ پر توکل کر) تم امیروں کی زندگی گزاروگے اور ایسے کاموں سے بچ جس کا پھر عذر پیش کیا جائے۔ ‘‘ اس لیے ہر وقت ہر کام کرتے وقت سوچنا چاہیے کہ بعد میں اس کا عذر تو نہیں پیش کرنا پڑے گا اور حقیقت یہ ہے کہ فطرتی طور پر اللہ تعالیٰ نے برائی واچھائی کی تمیز انسانی ڈھانچے میں رکھی ہے جسے ایمان کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ((أَسَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَتْکَ سَیِّئَتُکَ فَأَنْتَ مُوْمِنٌ۔))[3] ’’اے ابو امامہ ! اگر تمھاری اچھائی تمھیں اچھی لگے اور تمھاری برائی تمھیں بری
Flag Counter