فرمان باری تعالی ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا﴾ [1] ’’اے لوگو! زمین کی صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔‘‘ اور امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة)) [2] ’’شرعی فرائض کے بعد حلال روزی کمانا سب سے بڑا فرض ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر نبی دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو مانگتے دیکھا تو فرمایا: ’’تمھارے گھر میں کوئی چیز ہے۔ اس نے کہا: ایک موٹا کمبل ہے جس کا بعض حصہ اوپر لیتے ہیں اور بعض حصہ نیچے بچھا تے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دونوں چیزیں لے آؤ۔جب وہ دونوں چیزیں لے آیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں چیزوں کو کون خریدنا چاہتا ہے؟ایک آدمی نے کہا: میں ایک درہم میں خریدوں گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایک درہم سے زیادہ دینا چاہتا ہے تو ایک اور آدمی نے کہا : میں دو درہم میں خریدوں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دونوں چیزیں دے کر اس سے دو درہم لئے اور مانگنے والے انصاری نوجوان کو دے کر فرمایا: ایک درہم سے غلہ خریدواور اپنے گھر والوں کو دے دو، دو سرے درہم سے ایک کلہاڑا خرید کر میرے پاس لاو، جب وہ لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے دستہ ڈال دیا اور فرمایا: جاؤلکڑیا ں اکٹھی کرو اور بیچو اور فرمایا: میں آپ کو پندرہ دن تک نہ دیکھوں ، وہ آدمی چلا گیا، لکڑیا ں اکٹھی کرتا رہا اور بیچتا رہا، وہ آیا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ بعض کے مطابق اس نے کپڑے خریدے اور بعض کے مطابق غلہ خریدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیز آپ کے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ مانگنے کی وجہ سے قیامت کے دن آپ کے چہرے پر سیاہی ہو۔‘‘ [3] جب ایک نوجوان کے سامنے کسب حلال کی اہمیت واضح ہو گی تو یقیناوہ ناجائز کمائی کے ذرائع رشوت، چوری، ڈاکہ، خیانت، ناپ تول میں کمی، عیب دار مال کی فروخت، ٹیکس چوری اور بازارِ تجارت میں جھوٹ جیسی لعنتوں سے اجتناب کرے گااور اس کو پتہ ہو گا کہ ناجائز طریقہ کی کمائی جو وہ کھائے گا تو اس سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ عبادت اور دعابھی رائیگا ں جائے گی ۔ |