Maktaba Wahhabi

89 - 114
جب قرآن مجیدکی آیت :﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾[1]نازل ہوئی تو مدینہ کے نوجوان سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سب سے قیمتی اور محبوب کھجوروں کا باغ صدقہ کرنے کا اعلان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وإني أری أن تجعلها في الأقربین)) [2] (میری رائے یہ ہے کہ تم اسے رشتہ داروں میں بانٹ دو)تو سیدناابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک مقام پر صلہ رحمی کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الرحم معلقة بالعرش تقول:من وصلنی وصله اللّٰہ ، ومن قطعنی قطعه اللّٰہ )) [3] ’’رحم عرش سے لٹکا ہوا کہتا ہے: جو مجھے جوڑے گا اللہ اسے جوڑے گا ،اور جو مجھے کا ٹے گا اللہ اسے کاٹے گا ۔‘‘ ایک اور مقام پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لیس الواصل بالمکافیء ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمه وصلها)) [4] ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے، بلکہ دراصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع رحمی پر وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((لا یحل لرجل أمسی قاطع رحم إلا قام عنا)) ’’جس شخص نے قطع رحمی کی حالت میں رات گزاری ہے وہ ہماری اس مجلس میں سے اٹھ جائے۔‘‘ تو ایک نوجوان مجلس کے ایک کونے سے اٹھا اور اپنی خالہ سے صلح کرنے چلا گیا تو خالہ نے پوچھا کس بات نے تجھے صلح پر مجبور کر دیا ہے ،تو اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ابھی میں نے سنا ہے: ((لا تنزل الرحمة على قوم فیهم قاطع رحم)) [5]
Flag Counter