مرجوح صحیح روایت، شاذ صحیح روایت، یامعلول صحیح روایت وغیرہ کا نام دینا چاہیے۔ خلاصہ بحث : تحقیقِ حدیث میں نقد سند اور نقدمتن دو مستقل معیار نہیں ہیں! درج بالا مکمل کلام سے بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ خبر مقبول کی آخری دو شرائط پہلی تین میں ہی داخل ہیں اور وہ دونوں اساسی شرائط نہیں۔ پہلی تین شرائط میں شامل ہونے کے باوجود انہیں دوبارہ ذکر کرنے سے مقصود محض متن سے متعلقہ مذکورہ لوازمات کو اور بہتر انداز میں توجہ دے کر پورا کرنا ہے۔ نیز پہلی تین اساسی شرائط کے فقدان سے تو روایت ضعیف حقیقی بن جاتی ہے ، جبکہ آخری دو شرائط کے فقدان سے روایت حقیقی طور پر تو صحیح رہتی ہے، البتہ علماءاپنے استعمالات میں اسے بھی’ضعیف‘کا نام دے دیتے ہیں، البتہ یہاں محدثین رحمہم اللہ کا ’ضعیف‘کی اصطلاح کا اطلاق کرنا ضعفِ لغوی کے قبیل سے ہوتا ہے۔ درایتی نقد کے دعویداروں کا یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے کہ ہر حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے سند ومتن سے متعلقہ ہر دو معیارات سے مستقل ثابت کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اہل درایت کا یہ دعوی ٰ کہ ’’ درایت کی روشنی میں روایات کو پرکھنا ایک مسلمہ علمی اصول ہے اور جب کسی روایت کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ وہ قرآن کریم کی کسی نص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت معلومہ اور دین کے مسلمات یا عقل عام کے تقاضوں کے خلاف ہے تو اس کو یکسر رد کردینا چاہیے، چاہے اس کی اِسناد کتنی ہی صحیح اور اس کے طرق کتنے ہی کثیر کیوں نہ ہوں۔‘‘ [1] محدثین کرام رحمہم اللہ کے بیانات کے صریح منافی ہے اور متقدمین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ |