Maktaba Wahhabi

49 - 114
کم ہوں گے، لیکن ہماری تنقید تو دونوں طبقوں پر ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں طبقے دین کے اصل تصورِ اصلاح نفس کو پیش نہیں کر رہے۔ بھئی! اپنے تزکیے پر جتنا مرضی زور لگا لو، رہو گے تو انسان کے انسان ہی۔ بس اگر اسی ایک جملے میں ہی غور کر لو تو مروجہ تصوف اور اس کی حقیقت جان جاؤ گے۔ اسلام اور پیری مریدی اسلام میں جس پیری مریدی کی گنجائش ہے، وہ یہ ہے کہ پیر، مرید کی اصلاح کرے اور مرید، پیر کی اصلاح کرے۔ پیر، مرید کی بیعت کرے اور مرید، پیر کی بیعت کرے۔ پیر، مرید بھی ہو اور مرید، پیر بھی ہو۔ مرید، مرید بھی ہو اور پیر بھی، اور پیر، پیر بھی ہو اور مرید بھی۔ ایک طرف وحدت الوجود پر ایمان اور دوسری طرف پیر اور مرید کے فرق پر اصرار چہ معنی دارد۔ یہی سورۃ العصر کا خلاصہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کی اصلاح کریں گے۔ یہاں کوئی معصوم نہیں ہے، سب غیر معصوم ہیں۔ معصوم صرف نبی اور رسول کی ذات تھی۔ لہذا اب ایک غیر معصوم دوسرے کی اور دوسرا پہلے کی اصلاح کرے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الْعَصْرِ٭اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ٭اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ [1] ”قسم ہے زمانے کی کہ تمام انسان خسارے اور نقصان میں ہیں مگر وہ لوگ دنیا اور آخرت کے نقصان سے امن میں ہیں جو ایمان لائے، انہوں نے نیک اعمال کیے، ایک دوسرے کو حق بات کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔ “ اور اسی سورۃ العصر کے بارے امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر قرآن مجید میں اس کے علاوہ کچھ نازل نہ بھی ہوتا تو انسانوں کی ہدایت کے لیے یہ اکیلی سورت ہی کافی تھی۔ [2]پس تزکیہ نفس ہو یا اصلاح احوال، یہ دو طرفہ معاملہ ہے، اصلاح کا یک طرفہ تعلق تو صرف نبی اور رسول کی ذات سے ہوتا ہے۔ البتہ یہ بھی نہ کرے کہ پیر ہی کی اصلاح کرتا رہے، کبھی کبھی اپنی بھی اصلاح کروا لے۔
Flag Counter