مترادف قرار دیتے ہیں اور تصوف ان کے نزدیک کچھ ما بعد الطبیعاتی (metaphysical)امور کے وقوع کا نام ہے۔ پس دین کا جو تصور انہوں نے اپنے ڈراموں، سوانح اور سفرناموں سے عام کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کراماتی اور راہبانہ تصور دین ہے۔ ”شہاب نامہ“ اور ”لبیک“ کو دیکھ لیں کہ سوانح اور سفرنامے سے زیادہ کرامات کی کتاب معلوم ہوتی ہے۔ اور سلوک کے مقامات طے کرنے کا فیصلہ گویا کہ کرامات سے ہو رہا ہے۔ اور اشفاق احمد نے تو ”من چلے کا سودا“ کا آغاز ہی اس بات سے کیا ہے کہ والدین، چودہ سال بعد اپنے بیٹے سے ملنے سے اس لیے انکار کر دیتے ہیں کہ جو چیز اللہ کی راہ میں ایک بار دے دی تو اب ہمارا اس سے کیا تعلق۔ یہ وہی رویہ ہے کہ جس کا ذکر مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے بابا فرید گنج شکر رحمہ اللہ کے حوالے سے کیا ہے کہ جب انہیں ان کے بچے کی وفات کی خبر ملی تو کہا کہ سگ بچہ مر گیا ہے۔ دوسری طرف علماء کے حلقے میں تصوف کے میدان کے جو معتدل لوگ ہیں، وہ کرامات کو ککھ حیثیت نہیں دیتے جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو پڑھ لیں۔ بلکہ بعض صوفیاء نے تو لکھا ہے کہ کرامت اور مافوق الفطرت امور تو صوفی کا حیض ہیں لیکن بد قسمتی سے لوگوں کی ساری دلچسپی تصوف کے نام پر ایسی ہی چیزوں میں ہے۔ اور صوفی ادیبوں نے جو کچھ لکھا ہے، اس کا کچھ فائدہ بھی ہوا ہے مثلاً یہ کہ جاوید چوہدری جیسے لوگ دین سے جڑے رہتے ہیں لیکن نقصان زیادہ ہوا ہے ہر شخص ”بندہ“ کی بجائے ”بابا“ بننے کے چکر میں ہے۔ ہمارے دین کا خلاصہ بندہ بنانا ہے نہ کہ بابا۔ کیا یہ المیہ کم ہے کہ ہمارے ہاں اللہ سے تعلق کی گہرائی اس پوزیشن سے طے ہو رہی ہے کہ ہم نے بلندی کی کتنی منازل طے کر لی ہیں؟ اسی فکر میں لگے ہیں کہ قطب کے درجے پر پہنچنا ہے یا غوث بننا ہے۔ ساتویں آسمان تک پہنچ چکے اور عرش پر پہنچنا ہے۔ ہم اللہ عزوجل سے بندگی کے تعلق کو بھی اپنی بلندیوں کے معیارات سے پرکھنے سے باز نہیں آئے۔ ان ادیبوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایسے واقعات ہیں جو ہم میں سے ہر کسی کو پیش آتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم آپ میں وہ قوت تخلیق نہیں ہے کہ اپنی زندگی کے واقعات کو افسانوی رنگ دے کر ”بابا“ کہلوا سکیں لہذا آپ اس روحانی مقام پر فائز ہونے سے اس وجہ سے محروم رہتے ہیں۔ بھائی!مجھے بھی بہت الہام ہوتے ہیں، میرے ساتھ بھی بہت ما بعد الطبیعی واقعات پیش آتے ہیں، مجھے بھی بہت سی روحانی وارداتیں حاصل ہیں، میں ذرا سا اپنا سر جھکا لوں تو اپنا قلب جاری کر سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ لیکن مجھے شہاب نامہ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معمول کی چیزیں ہیں، ہر شخص کو پیش آتی ہے۔ انہیں ادب بنانے کی ضرورت نہیں ہے، بے کار کا کام ہے بلکہ ادب کے نام پر بے ادبی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ صوفیاء کے بعض حلقے ان ادیبوں کے تصوف سے نالاں ہیں، اس کی وجہ نفسانی ہے کہ انہوں نے ان کا کاروبار خراب کر دیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اپنے اندر کے روحانی خلا کو پر کرنے کے لیے ایسے ادیبوں ہی کا رخ کریں گے کہ جس سے روایتی تصوف کے پیروں کی دکان متاثر ہو گی کہ ان کے مرید |