دو بزرگ علماء کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ کرامات کیسے وجود میں آتی ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ حکایات اولیا ء کے نام سے جس قدر دیومالائی کرامات تصوف کی کتابوں میں نقل ہو گئی ہیں، انبیاء کے معجزات ان کے سامنے حقیر معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کرامات دراصل پیروں کی نہیں بلکہ مریدوں کی ہیں کہ انہوں نے اپنے پیر کی زندگی میں ہی اس کے نام سے وہ باتیں عام کر دیں کہ خود پیر صاحب بھی ان کا انکار کرنا چاہیں گے تو لوگ یقین نہ کریں گے۔ اس کا تعلق انسان کی نفسیات سے بھی ہے۔ انسان جس سے متاثر ہونا چاہتا ہے، اسے مافوق الفطرت انسان(superman) کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ مغرب کی فلم انڈسٹری بھی اسی انسانی کمزوری کی بنیاد پر سپرمین، اسپائیڈر مین، بیٹ مین، آئرن مین اور معلوم نہیں کیسے کیسے مافوق الفطرت کرداروں کے ذریعے بلین ڈالرز کا کاروبار کر رہی ہے۔ اولیاء اللہ کی مافوق الفطرت قسم کی کرامات اور حکایات بھی دراصل مذہبی کاروبار ہی ہے جو کسی صالح شخص کی وفات کے بعد اس کی ناخلف اولاد اس کا مزار بنا کر اور اس کی گدی سنبھال کر کرتی ہے۔ اور اب اس ناخلف جانشین اور خلیفہ مجاز میں وہ اخلاق اور کردار تو ہوتا نہیں کہ جس کی وجہ سے کوئی نذر اور نذرانے آئیں تو پھر اس گدی سے متعلق اکابر اولیا ءکے بارے ایسی حکایات گھڑی جاتی ہیں کہ جن سے ان کے سپرمین ہونے کے یقین میں اضافہ ہو اور سلسلے کے مریدوں میں زیادہ سے زیادہ ہوں تا کہ گدی نشین پیر صاحب کا کاروبار خوب ترقی کرے۔ پاکستان کے بڑی بڑی گدی نشین کون سے ہیں؟ سارے سیاست دان ہیں۔ ایک طرف مذہب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ ان کا مذہبی استحصال کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف سیاست کے راستے ان کی دنیا بھی اپنے قدموں میں ہے۔ شاہ محمود قریشی ، مخدوم امین فہیم، یوسف رضا گیلانی اور پیر پگاڑا وغیرہ کون لوگ ہیں؟ ان کا دینداری سے کیا اور کتنا تعلق ہے؟ لیکن جن درباروں کے یہ گدی نشین ہیں، ان سے وابستہ مریدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہی لوگ ہیں کہ عوام کی دنیا بھی خراب کر رہے ہیں اور ان کی آخرت بھی تباہ کر چکے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَا اَطَعْنَا اللّٰهَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَا٭وَ قَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا٭ رَبَّنَا اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ﴾ [1] ”اور اہل جہنم کہیں گے: اے رب ہمارے، ہم نے اپنے پیشواؤں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے ہٹا دیا۔ اے ہمارے رب، ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر۔“ |