احکامات میں موجود علل ، اور وجوہ استدلال کو بیان کرنے کا اہتمام امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں اس امر کا بہت زیادہ اہتمام کیا ہے کہ دلائل شرعیہ میں پائی جانے والی علتوں اور وجوہ استدلال کو بیان کیا جائے۔ آپ متعدد مسائل کے بیان میں اس منہج کواختیارکرتے ہیں۔ [1] آپ مفتی کی رہنمائی کے لیے فوائد ذکر کرتے ہوئے ایک فائدہ میں فرماتے ہیں: ” مفتی کو چاہیے کہ فتویٰ دیتے وقت جہاں تک ممکن ہو دلیل اور اس کے مأخذ کاتذکرہ ضرور کرے۔ دلیل اور اس کے حوالہ کو نقل کئے بغیر سادہ انداز سے مستفتی کو جواب مت دے۔ اگر اس نے اس پر عمل نہ کیا تو یہ اس کی تنگی نظر اور علم کو واضح نہ کرنے کی علامت ہے۔ اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاویٰ پر نظر دوڑائے، کہ جن کی بات حجت ہے، تو اسے معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاوی جات، حكم کی حکمت و تنبیہ نیز امثلہ اور وجہ مشروعیت پر مشتمل ہیں۔ ایک موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’بیع الرطب بالتمر‘‘ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’أينقص الرطب إذا يبس‘‘ ’’کیا تر کھجور خشک ہوجانے کے بعد کم ہو جاتی ہے؟‘‘تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیع سے منع فرما دیا۔[2] یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی علم تھا کہ تر کھجور خشک ہو کر کم ہو جاتی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس لئے پوچھا تاکہ ان کو اس بیع کے حرام ہونے کی علت اور اس کے سبب سے آگا ہ کردیں۔ ‘‘ اسی طرح روزے کی حالت میں شوہر کا بیوی کو بوسہ دینے سے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے جواب میں یہ فرمانا : اگر آپ منہ میں پانی بھرنے کے بعد کلی کر دیں تو کیا یہ باعث نقصان ہوگا ؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں! [3] اس سے آپ کا مقصود یہ تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حقیقت سمجھادیں کہ مقدمات حرام سے یہ لازم نہیں آتا کہ مقدمہ بھی حرام ہے ۔ بوس و کنار کرنا دراصل مقدمہ جماع ہے اور حالت روزہ میں جماع کے حرام ہونے سے مقدمات جماع حرام نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح منہ میں پانی بھر کر اسے کلی کی صورت میں گرا دینا حرام نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں بھی پائی جاتی ہے : ((لا تنکح المرأة علی عمتها ولا خالتها |