علومِ عربیہ کے قواعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اہل زبان کے محاورے اور اس محاورے سے ان کی مراد اور فہم کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں، اور قرآنِ مجید بھی ان کے محاورات میں سے ایک محاورہ ہے۔ اگر قرآنِ مجید میں ان کے فہم کااعتبار نہیں کیا جاتا تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ان قواعد کا بھی اعتبار نہ کیا جائے جو ان کے محاورے سے اخذ کئے گئے ہیں اور اگر ان قواعد کو مانا جاتا ہے تو عدل یہی ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی ان کے فہم کو تسلیم کیا جائے۔ قواعدِ عربیہ قرآن مجید، حدیث مبارکہ اور دیگر اہل زبان کے محاورات سے مستنبط ہیں اور استنباط کیلئے یہ ضروری ہے کہ جس حدیث، آیت یا شعر سے قاعدہ اخذ کیا جائے، پہلی اچھی طرح اس کا مطلب سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر ہم آیت مبارکہ: ﴿ وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ﴾ [1] سےیہ قاعدہ اَخذ کرتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی شخص کے ساتھ سائل کے جواب کے انداز میں خطاب کیا جاتاہے باوجودیکہ اس نے سوال نہیں کیا ہوتا۔ تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم اور مطلب معلوم ہو۔ اب جو شخص ان قواعد کو مانتا ہے، اسے واضعینِ قواعد کی درایت تفسیری پراعتماد ہونا چاہئے۔ الغرض جب واضعین قواعد کی درایت تفسیری حجّت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری کی حجیت پر اس سے بڑھ کر اعتماد ہونا چاہئے کیونکہ وہ عرب اُول تھے اور قرآنِ مجید عرب اول کے محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری سب سےمقدّم ہے ، ہاں البتہ اگر کوئی اس سے قوی دلیل مل جائے تو اس کو چھوڑا جاسکتا ہے۔ حرفِ آخر چنانچہ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ کا جو مفہوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق ہو، وہ صحیح ہے اور جو خلاف ہو وہ غلط۔ اس لیےکہ جن علوم کی بنیاد پر محاورۂ صحابہ سے اعراض کیا جاتا ہے وہ علوم تو کئی برس کے بعد مدون ہوئے ہیں، ان سے وہیں تک استدلال صحیح ہے، جہاں تک ان کے فہم کے خلاف نہ ہو۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وأما لغة القرآن فينبغي أخذها من استعمال العرب الأول ولكن الاعتماد الكلّي على آثار الصحابة والتابعين، وقد وقع في نحو القرآن خلل عجيب وذلك أن جماعة منهم اختاروا مذهب سيبويه، وما لم يوافقه فهم يؤوّلونه وإن كان تأويلًا بعيدا، وهذا عندى غير صحيح فينبغي اتّباع الأقوى وما كان أوفق للسّياق والسّباق سواء كان مذهب سيبويه أو مذهب الفرّاء... وأما المعاني والبيان فهو علم حادث بعد انقراض الصّحابة والتّابعين فما يفهم منه في عرف جمهور العرب فهو |