کےمعانی لغت اور شرع میں مختلف ہیں، غلط ہے۔تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کسی بھی اصطلاح کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک خود اہل اصطلاح بیان نہ کریں مثلاً ماضی، مضارع، اسم فاعل اور اسم مفعول علم الصرف کی اصطلاحات ہیں۔فاعل، مفعول، حال اورتمیز وغیرہ علم نحو کی اصطلاحات ہیں۔ محکوم علیہ، محکوم فیہ اور نسبت خبریہ وغیرہ علم منطق کی اصطلاحات ہیں۔ بالکل اسی طرح صلوٰۃ، زکوٰۃ اور وضو وغیرہ شریعت کی اصطلاحات ہیں۔ ان تمام اصطلاحات کے علم میں ہم اہلِ فن کے محتاج ہیں، لہٰذا اگر صاحبِ قاموس صلوٰۃ کے معنی’’ عبادة فيها رکوع وسجود ‘‘ (ایسی عبادت جس میں رکوع و سجود ہوں) یا زکوٰۃ کا معنی’’ ما أخرجته من مالك لتطهّره‘‘(وہ حصہ جو آپ اپنے مال کو پاک کرنے کیلئے اس میں سے نکالیں) یا وضو کا معنی’’ التوضّي للصلوة‘‘ (نماز کیلئے پاکیزگی حاصل کرنا) لکھ بھی دیں تو بھی ہم احادیثِ نبویہ اور اقوالِ صحابہ سے بےنیاز نہیں ہوسکتے کیونکہ صاحبِ قاموس نے خود یہ معانی اہل ِشریعت سے ہی لے کرلکھے ہیں۔ گویا دراصل یہ معانی حدیثِ نبوی اور اقوالِ صحابہ سے ہی ماخوذ ہیں۔ اسی لئے ایسے الفاظ کو منقولاتِ شرعیہ کہا جاتاہے۔ اگر ہم اس بات کو نظر انداز بھی کردیں کہ لغت والے نے یہ معانی اہل شرع سے ہی اخذ کئے ہیں تب بھی ہم صرف لغت پراعتماد نہیں کرسکتے کیونکہ صاحبِ قاموس کے بیان کردہ یہ معانی اصطلاحِ شرع کے حوالے سے ناقص ہیں جیسا کہ صاحبِ قاموس نے’صلوٰۃ‘ کامعنی کیا کہ ایسی عبادت جس میں رکوع و سجود ہو۔ حالانکہ نماز کے صرف یہی دو ارکان نہیں ہیں بلکہ قیام، قراء ت، تشہد، تکبیر تحریمہ، تسلیم یہ سب ارکان نماز ہیں جنہیں صاحبِ قاموس نے بیان ہی نہیں کیا۔ یہی حال باقی اصطلاحات کی لغت میں موجود تعریفات کا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ قرآنِ مجید کا سمجھنا صرف کتب لغت کی ورق گردانی سے ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں بعض اوقات لغت میں ایک لفظ کے کئی معانی لکھے ہوتے ہیں، مثلاً صلوٰۃ کے معانی دُعا اور کولہوں کو حرکت دینا، دونوں لغت میں موجود ہیں تو ایسی صورت میں یہ جاننا کیونکر ممکن ہے کہ قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ ﴿ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ﴾ میں کون سامعنی مراد ہے؟ اسی طرح زکوٰۃ کامعنیٰ لغت میں مطلق طور پر پاک کرنا ہے۔ تو ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ کے حکم قرآنی میں نفس کو آلائشوں سے پاک کرنا مقصود ہے یا مال کو پاک کرنا۔ الغرض ایسے الفاظ جن کے ایک سے زیادہ معانی لغت میں موجود ہوں، ان میں کسی ایک معنیٰ کا تعین اور باقی معانی پر اس کو ترجیح دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کوئی سببِ ترجیح نہ پایاجائے۔ بالفرض اگر کسی بناء پر ہم ایک معنی کو ترجیح دے کر متعین کر بھی لیتے ہیں تو اس پر ایک اوراشکال وارد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی مرجح کی بناء پر معنیٰ متعین کرنے سے آیت مؤول ہوجائے گی اور مؤول کی اپنے معنی پر دلالت ظنی ہوتی ہے جیساکہ کتبِ اصول میں ہے: ’’ثم إذا ترجّح بعض وجوه المشترك بالغالب الرّأي یصیر مؤوّلا وحکم المؤوّل |