Maktaba Wahhabi

51 - 114
مکمل گریز کو اگر ایمان و ہدایت کیلئے شرط قرار دیا جائے تو بہت کم لوگوں کا ایمان قبولیت کے معیار پر پورا اُترے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی اس حد تک بڑھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ حضرات پیش ہوئے اور اپنے اضطراب کا اظہار ان الفاظ میں کیا: وأینا لم یظلم یا رسول اﷲ!؟ ’’ یا رسول اللہ! ہم میں سے کون ہے جس سے تھوڑی بہت زیادتی نہیں ہو تی؟ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا: (( لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: ﴿ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ [1] ’’ یہ وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس سے مراد وہ ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا تھا کہ اے میرے پیارےبیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، یقیناً شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔ ‘‘ اب قرآنِ کریم میں عام طور پر بولا جانے والا ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عرب بلکہ عربی کے امام ہیں ، جن کے محاورہ کے مطابق قرآنِ کریم نازل ہوا ہے، مگر انہیں لفظ کی مراد سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے اور وہ اس وقت ہی قرآنِ کریم کا مقصد پاسکے ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ جب آیتِ کریمہ نازل ہوئی: ﴿ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا يُّجْزَ بِه ﴾[2] ’’ جس نے برائی کا کوئی کام کیا تو اسے ضرور اس کا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سخت پریشان ہوگئے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَفِي كُلِّ مَا يُصَابُ بِهِ الْمُسْلِمُ كَفَّارَةٌ حَتَّى النُّكْبَةِ يُنْكَبُهَا أَوِ الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا (( [3] ’’ ایک دوسرے کے قریب رہو اور اور سچی بات پر ڈٹے رہو، اس دنیا میں بھی اہل ایمان کو جو تکالیف اور پریشانیاں پیش آتی ہیں، وہ ان کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں حتیٰ کہ کسی مومن کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ اس کے لئے کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘ بعض روايات میں یہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے،[4] تو سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نسلی عرب ہیں،
Flag Counter