مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ وَ يَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ [1] سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب نازل کرنے کا جو بھی مطالبہ کیا یا اللہ عزوجل نے مشرکین کو اس کے جواب میں جس عذاب سے ڈرایا، تو وہ دنیا کی بجائے آخرت کا عذاب تھا۔ پس یہ مقدمہ قرآن مجید کی ان صریح آیات کے مطابق بہت ہی کمزور محسوس ہوتا ہے کہ مشرکین عرب پر کوئی ایسا عذاب نازل ہوا تھا جیسا کہ پچھلی قوموں پر نازل ہوتاتھا۔ ۱۳۔ آیت مبارکہ﴿ قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَا اِلَّا اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ يُّصِيْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖ اَوْ بِاَيْدِيْنَا فَتَرَبَّصُوْا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ﴾ [2]میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس کے مخاطب مشرکین نہیں بلکہ منافقین ہیں جیسا کہ سیاق وسباق سے واضح ہے۔ اور انہی منافقین کے بارے اللہ عزوجل نے یہ فرمایا: ﴿ فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَا اَوْلَادُهُمْ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ۰۰۵۵ وَ يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ﴾ [3] پس جس طرح مشرکین کو دنیا میں عذاب کی وعید سنائی گئی ، اسی طرح منافقین کوبھی دنیا میں عذاب کی وعید سنائی گئی لیکن ان دونوں گروہوں پر ویسا عذاب نہیں آیا جیسا کہ پچھلی قوموں پر رسولوں کی نافرمانی کی صورت میں آیا تھا۔ |