جواب یہ ہے کہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کی دیت مرد کے برابر ہے ، حتیٰ کہ وہ ایک تہائی تک پہنچ جائے۔امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ (متوفیٰ 94ھ) فرماتے ہیں کہ سنت یہی ہے (کہ ایک تہائی تک دیت مساوی ہے) اگرچہ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی(متوفیٰ 204ھ) ، امام لیث(متوفیٰ 175ھ) ، امام ثوری (متوفیٰ 161ھ) رحمہم اللہ اور اہل علم کی ایک جماعت اس کی مخالف ہے، اور وہ قلیل وکثیر میں نصف دیت کے قائل ہیں، لیکن سنت پر عمل کرنا اولیٰ ہے۔ میراث میں عورت کا حصہ آدھا ہونے کی حکمت بھی واضح ہی ہے کہ مرد عورت کی نسبت مال کا زیادہ محتاج ہوتا ہے، کیونکہ مرد عورتوں پر قوام ہیں اور مرد عورت کی نسبت میت کی زندگی میں اس کے لئے زیادہ نفع مند ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے وراثت کے حصے تقسیم کرنے کے بعد اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ تمہارے باپ اور بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لئے زیادہ نفع مند ہے۔چونکہ مرد عورت کی نسبت زیادہ نفع بخش اور زیادہ محتاج ہے لہٰذا وہ زیادہ وراثت لینے کا بھی حقدار ہے ۔ عقیقے کے معاملے میں مرد کو دی گئی فضیلت اس کی مردانگی کے شرف اور عورت پر اسے دی گئی عظمت کے تابع ہے۔ ویسے بھی والدین بیٹے کی نعمت پر زیادہ خوش ہوتے ہیں اور زیادہ شکر ادا کرتے ہیں، جب نعمت زیادہ ہو تو اس کا شکرانہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ‘‘ اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع’’ عورت کی دیت کا مسئلہ‘‘ کی طرف آتے ہیں: عورت کی دیت کے مسئلہ پر فقہاء کرام کا موقف احناف:احناف کے نزدیک عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ امام کاسانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 587ھ) فرماتے ہیں: ’’وإن كانت أنثى فدية المرأة على النصف من دية الرجل. ‘‘[1] ’’اور اگر مقتول عورت ہو تو عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔‘‘ دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’إن دية المرأة على النصف من دية الرجل بإجماع الصحابة. ‘‘[2] ’’بے شک عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔‘‘ مالکیہ:مالکیہ کے نزدیک بھی مسلمان عورت کی دیت مسلمان مرد سے آدھی ہے۔ |