Maktaba Wahhabi

79 - 110
بِهِ عَلَى الْوَالِدِ أَتَمَّ، وَالسُّرُورُ وَالْفَرْحَةُ بِهِ أَكْمَلَ؛ كَانَ الشُّكْرَانُ عَلَيْهِ أَكْثَرَ، فَإِنَّهُ كُلَّمَا كَثُرَتْ النِّعْمَةُ كَانَ شُكْرُهَا أَكْثَرَ، وَاللّٰہ أَعْلَمُ. ‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ نے بدنی عبادات اور حدود میں مرد اور عورت کو مساوی قرار دیا ہے، جبکہ دیت، گواہی،میراث اور عقیقہ میں اسے مرد سے نصف حصے پر رکھا ہے۔اس میں بھی شریعت کا کمال اور اس کی حکمت ولطافت پوشیدہ ہے۔کیونکہ بدنی عبادات اور عقوبات کی مصلحت میں مرد اور عورتیں مشترک ہیں، ان دونوں اصناف کی ضروریات ایک جیسی ہیں، لہٰذا ان میں تفریق کرنا مناسب نہیں تھا۔ہاں بعض ایسے امور بھی ہیں جہاں تفریق زیادہ مناسب لگتی ہے، جیسے جمعہ اور نماز باجماعت ۔اللہ تعالیٰ نے مردوں پر تو جمعہ اور نماز باجماعت فرض قرار دی ہے لیکن عورتوں کے گھروں سے زیادہ نہ نکلنے اور مردوں کے ساتھ عدم اختلاط کے سبب انہیں اس سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے عورت کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے اسے اس فرض کی ادائیگی سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے،لیکن حج، زکوۃ، روزہ اور طہارت کے حوالے سے ایک جیسی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کو برابررکھا گیا ہے۔گواہی کے سلسلے میں عورت کی گواہی کو مرد کی گواہی کا نصف قرار دیا گیا ہے، اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ عورت مرد کی نسبت کم عقل اور کمزور حافظے والی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو فہم وفراست، عقل ودانش اور حافظہ وتمییز میں عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ گواہی کے میدان میں عورت مرد کے مقام پر کھڑی نہیں ہو سکتی ہے۔اگرعورت کی گواہی کو قطعی طور پر ناقابل قبول قرار دے دیا جاتا تو اس سے بےشمار حقوق ضائع ہو جاتے اور عورت معاشرے کا معطل عضو بن کر رہ جاتی،لہٰذا قرین قیاس اور عقل کے قریب اَمر یہی تھا کہ عورت کی گواہی قبول کرنے میں اس کے ساتھ اسی کی جنس سے ایک اور عورت کو شریک کر لیا جائے تاکہ ایک کے بھولنے کی صورت میں دوسری عورت اس کو یاد دلا سکے اور دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے قائم مقام بن جائے اور ان دونوں کی گواہی سے علم یا ظنِ غالب حاصل ہو سکے جو ایک مرد کی گواہی سے حاصل ہوتا ہے۔ دیت کا معاملہ یہ ہے کہ عورت مرد کی نسبت ناقص العقل اور قلیل النفع ہو تی ہے اور دینی مناصب، ریاستی ذمہ داریاں،دفاع جان ومال،زمین کی آباد کاری،جہاد، صنعتکاری، ضروری مصالح اور دین ودنیا کی حفاظت جیسے امور سرانجام نہیں دے سکتی، لہٰذا ان امور میں عورت کی قیمت(دیت) مرد کے برابر نہیں ہو سکتی، چنانچہ شارع کی حکمت کا تقاضا تھا کہ ان امور میں عورت کی دیت مرد کی نسبت آدھی ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنا یہ اصول ایک تہائی سے کم دیت میں توڑ دیا ہے اور آپ وہاں مرد اور عورت کی برابر دیت مقرر کرتے ہیں۔ تو اس کا
Flag Counter