Maktaba Wahhabi

49 - 117
ہے۔ اب اگر ان عالم صاحب پر بعد میں واضح ہو جائے کہ یہ روایت حدیث کی فلاں کتاب میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے تو وہ اس کو صحیح قرار دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ بعینہ یہی معاملہ سلف صالحین کا ہے، ان کا حدیث کی درس و تدریس میں شغل بہت زیادہ تھا، لہٰذا جب ان سے کسی حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا جاتا تو پہلی نظر میں ہی وہ اپنے وسیع مطالعہ اور طویل تجربہ کی روشنی میں حاصل ہوجانے والے فنی ذوق کی روشنی میں اس روایت کے بارے میں عموماً کوئی حکم لگا دیتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے کچھ علامتیں بھی مقرر کی ہوئی تھیں کہ اگر ان علامات میں سے کوئی علامت ہو تو اس حدیث کے موضوع ہونے کا امکان غالب ہے۔سلف کا مقصود ان علامات کو بیان کرنے سے ہر گز یہ نہیں ہوتا تھا کہ اگر کوئی روایت، جس میں ان کی بیان کردہ علامات میں سے کوئی علامت پائی جاتی ہو ، محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق مقبول قرار پائے تو وہ اس کو بھی صرف ان علامات کی بنیاد پر موضوع قرار دیں گے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ میں بعض اہل علم یعنی ربیع بن خیثم ، ولید بن مسلم اور جریروغیرہ کے جو اقوال ذکر کیے ہیں، وہ در اصل ’’معرفة وضع الحدیث‘‘ کے ضمن میں ضعیف حدیث کی علامات کے طور پر وارد ہوئے ہیں ۔ دوسرا اُصول مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے دوسری کسوٹی عملِ معروف ہے۔اس کی ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ملتی ہے: عن محمد بن جبیر بن مطعم عن أبیه قال قال رسول اللّٰه صلی للّٰہ علیہ وسلم ((ماحدثتم عنی مما تعرفونه فخذوه وما حدثتم عنی مما تنکرونه فلا تأخذوا به قال: فإني لا أقول المنکر ولست من أهله)) [1] ’’محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھ سے منسوب کر کے کوئی روایت اس معروف کے مطابق کی جائے جس سے تم آشنا ہو توتم اس کو قبول کر لو۔اور اگر مجھ سے منسوب کر کے کوئی ایسی راویت کی جائے جس کو تم منکر محسوس کرو تو اس کونہ قبول کرو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں منکر کہتا ہوں اور نہ میں منکر باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر روایت تمہاری معروفات کے مطابق ہوتو اس کو قبول کرو اور اگر ان سے متصادم ہو تو اس کو رد کردو۔‘‘ [2]
Flag Counter