ہوتی تو وہ کبھی بھی خلیفہ ہارون الرشید کو موطا امام مالک کو بطور قانون نافذ کرنے سے منع نہ کرتے۔ [1] تعامل اہل مدینہ کی حجیت کے بارے میں مشہور مالکی فقیہ قاضی عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل مدینہ کے اجماع کی دو قسمیں ہیں: اجماع نقلی، اجماع استدلالی پھر نقلی اجماع تین صورتوں پر مشتمل ہے: ۱۔ وہ بات جونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتدا ہی سے منقول ہو، جیسا کہ اہل مدینہ کی اذان اور اوقات نماز کے سلسلے کی روایات۔ ۲۔ ایسا تعامل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے منقول چلا آرہا ہو، جیسے کہ صاع اور مد کی مقداریں۔ ۳۔ وہ بات کسی اقرار سے منقول ہو جیسے کہ ان حضرات کا سبزیوں وغیرہ سے زکوٰۃ وصول نہ کرنا، حالانکہ مدینہ میں سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ان سے عشر وصول نہیں کرتے تھے۔ ایسے مسائل میں اہل مدینہ کا اجماع حجت ہے۔ [2]استدلالی اجماع یہ ہے کہ اہل مدینہ کے مجتہدین کسی رائے تک اجتہاد کے ذریعے پہنچیں۔ ایسے مسائل میں ان کا اجماع حجت نہیں۔‘‘ [3] مراتب اجماع اجماع کے چار مراتب بیان کیے گئے ہیں، جن کی مختصر وضاحت ذیل میں پیش کی جاتی ہے: ۱۔ کسی مسئلہ میں تمام صحابہ کرام کا اتفاق ہو جائے۔ ایسا اجماع قرآن مجید کی آیت کی طرح ہے اور ایسے اجماع کا انکار کرنا احناف کے نزدیک کفر ہے۔ جیسے حضرت ابو بکر صدیق کی خلافت پر عام صحابہ کرام نے ان کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ ۲۔ کسی مسئلہ میں صحابہ کرام کا ایسا اتفاق سامنے آئے کہ جس میں بعض صحابہ نے خاموشی اختیار کی ہو اور اپنی رائے کا اظہار نہ کیا ہو۔ علماے کرام نے ایسے اجماع کو حدیث متواتر کے برابر درجہ دیا ہے۔ جیسےعہد ابوبکر صدیق میں بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپ نے ان کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا۔ ابتداءً بعض صحابہ نے اس کی مخالفت کی لیکن بعد میں سب متفق ہو گئے۔ بہت سے صحابہ کرام کی طرف سےیہ اتفاق سکوت کی صورت میں سامنے آیا۔ ۳۔ اجماع کا تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ تابعین و تبع تابعین کسی مسئلہ میں متفق ہو جائیں۔ اس اجماع کو حدیث مشہور |