کے برابر شمار کیا گیا ہے۔ ۴۔ بعد میں آنے والوں کا صحابہ کرام یا تابعین میں کسی کے قول پر اتفاق کر لینا۔ یہ سب سے کم درجہ کا اجماع ہے۔ [1] اصول ِ’اجماع‘ کا خصوصی تجزیہ شروع میں ہم نے اجماع کی لغوی اورفنی و اصطلاحی تعریف پر بحث کی ہے۔ ’اجماع‘ کی یہ تعریف دراصل متاخرین کی وضع کردہ ہے۔ متقدمین اہل علم کے نزدیک الفاظ کی نسبت معانی و تصورات(concepts) زیادہ اہم تھے لہٰذا ان کی زیادہ کوشش معانی و تصورات کی وضاحت پر صرف ہوتی تھی۔ وہ کسی لفظ کے لغوی معنیٰ میں کچھ مزید معنیٰ شامل کرتے ہوئے اسے ایک عرفی معنیٰ میں استعمال کر لیتے تھے جو بعد ازاں مختلف شروط وقیود کے ساتھ متاخرین کے ہاں اصطلاح بن جاتی تھی اور متاخرین اپنی اصطلاحات کو جامع ومانع بنانے کی کوشش میں الفاظ وعبارات کا اختلاف اور شروط وقیود کے اضافے منطقی طور پر جامع مانع تعریفات کے لیے کرتے رہتے تھے۔گویا متاخرین میں یونانی فلسفہ ومنطق کے در آنے کے سبب سے معانی کی بجائے الفاظ نے زیادہ اہمیت اختیار کر لی اورمعانی وتصورات کی صراحت کی بجائے فنی تعریفات کے الفاظ کا ہیر پھیر ہی بحث وتحقیق کا اصل جوہر قرار پایا۔ یہی وجہ ہے کہ متاخرین کی فنی اصطلاح اجماع سے مراد کسی زمانے میں جزوی رائے پر جمیع علمائے مجتہدین کا اتفاق ہے، لیکن پراس قدر عقلی ومنطقی اعتراضات کی بھرمار ہے کہ جن کا جواب دینا بہت مشکل ہے ۔[2] بلکہ متاخرین کو صحابہ کے زمانے میں بھی کسی جزوی اجتہادی مسئلہ میں تمام مجتہد علماء کا اتفاق ثابت کرنا بھی ایک مشکل نظر آتاہے۔ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’والذي یتضح من النصوص التي أوردناها أن الاجماع الکامل وهو معرفة جمیع آراء الفقهاء والمجتهدین صراحة في المسألة لم یقع في عهد الصحابة وذلك أنه رغم القامة الجبریة التي فرضها عمر علي الفقهاء في خلافته کان هو بنفسه یرسل القضاة الفقهاء إلى الأمصار لیحکموا بین الناس کرساله أبا موسی الأشعری إلى البصرة مثلا لیقضی بین الناس وهو الفقیه الذي یعد أحد الفقهاء في عصر الرسول ولم یکن یستخرج رأیه أو أقل ما یقال لم یعرف أنه استخرج رأیه في المسائل التي عرضت لعمر والتي لم یعرف لها حکما لا من کتاب ولا سنة ولهذا یمکن أن نقول أن الجماع الذي کان على عهد الصحابه رضی اللّٰہ عنهم هو إجماع الفقهاء حاضری مرکز الخلافة أما من سواهم من الفقهاء والمجتهدین فإجماعهم یکون تبعاً لإجماع الذی صدق علیه الخلیفة وعمل |