Maktaba Wahhabi

95 - 117
2۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا: ﴿ فَبَشِّرْ عِبَادِ٭الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهُ﴾ [1] ’’میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر جو بہترین بات ہو اس کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ امام لیث رحمہ اللہ کو اس خط میں لکھتے ہیں: ’’لازم ہے کہ تو اپنے نفس کے بارے میں محتاط رہے اور جس دلیل کی اتباع میں نجات ہے اس کو تلاش کرے۔‘‘ پھر امام موصوف نے مذکورہ بالا دونوں آیات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’فإنما الناس تبع لأهل المدینة. ‘‘[2] ’’بے شک لوگ اہل مدینہ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ امام موصوف رحمہ اللہ کا مدعا یہ تھا کہ اہل مدینہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سابقین اولین انصار و مہاجر ین کی پیروی کی،چنانچہ اہل مدینہ کی اتباع ہی بہترین اتباع ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ وحی کے نزول کے وقت موجود تھے، چنانچہ وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے ہیں۔ 3۔ اجماع اہل مدینہ کے حق میں درج ذیل حدیث کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن المدینة لتنفی خبثها کما ینفی الکیر خبث الحدید)) [3] ’’بے شک مدینہ منورہ اپنی گندگی کو دور پھینک دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی گندگی (زنگ ) کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ علماے اصول میں سے امام غزالی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے ہاں صرف اہل مدینہ کا اجماع ہی حجت ہے۔[4] اور دیگر بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اہل مدینہ کے علاوہ کسی اور اجماع کو حجت تسلیم ہی نہیں کرتے تھے،[5] لیکن نامور فقیہ ابن امیر الحاج(متوفیٰ879ھ) امام مالک رحمہ اللہ کی طرف منسوب اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ علامہ ابن بکر ابو یعقوب رازی، علامہ طیالسی، قاضی ابو الفرج اور قاضی ابوبکر رحمہم اللہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اجماع کے عام تصور کے حوالے سے تو امام مالک رحمہ اللہ دیگر
Flag Counter