دراصل احکام شرع کی دو قسمیں ہیں : وہ ضروریات دین یا امہات شرائع، جن کے ادراک میں نہ خواص و عوام کی کوئی تخصیص ہے اور نہ کسی علمی رائے کی ضرورت، مثلاً نقل قرآن یا نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ کی فرضیت۔ ان پر اجماع کے لئے عوام و خواص سب کا اعتبار کیا جائے گا۔ احکام شرع کی دوسری قسم وہ ہے جس سے صرف علما اور اہل اجتہاد واقف ہو تے ہیں مثلاًنماز، نکاح و طلاق اور بیع وغیرہ کی تفصیلات۔ اس میں صرف اہل علم و اجتہاد کا اتفاق معتبر ہو گا۔ [1] اجماع اہل مدینہ(تعامل اہل مدینہ) اہل مدینہ کے اجماع وتعامل کے حجت ہونے کے بارے اہل علم کے دو موقف کتب اصول میں موجود ہیں: اہل مدینہ کا اجماع حجت ہے، اس کے قائلین مالکیہ ہیں۔[2] اور اہل مدینہ کا اجماع قابل حجت نہیں ہے، یہ جمہور کا مؤقف ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ جمہور کےموقف کی نمائندگی میں لکھتے ہیں: ’’إجماع أهل المدینة على انفرادهم لیس بحجة عند الجمهور ، لأنهم بعض الأمة. ‘‘[3] ’’جمہور کے نزدیک صرف اہل مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ امت کا ایک حصہ ہیں(نہ کہ پوری امت)۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ (متوفیٰ 179ھ) نے لیث بن سعد رحمہ اللہ (متوفیٰ 175ھ) کو ایک خط لکھا کہ جس میں ان کے ایک فتویٰ پر اظہار ناراضگی کیا اور انہیں اس فتویٰ سے رجوع کی رغبت دلائی ، کیونکہ وہ مدینہ منورہ کے رواج کے خلاف تھا۔ اس خط میں امام صاحب نے تعامل مدینہ کی اہمیت بتانے کے لیے کچھ دلائل بھی دئیے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ﴾ [4] ’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔‘‘ |