Maktaba Wahhabi

93 - 117
اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی، کجا یہ کہ سب اس کی خلاف ورزی پر اجماع کرلیں۔[1] البتہ اگرتبدیلی حالات سے اجماع کا وہ وصف ہی تبدیل ہوجائے، جس کی بنا پر وہ اجماع معرض وجود میں آیا تھا تو ایسی صورت میں دوسرا اجماع ہوجانا ممکن ہے، کیونکہ یہ اجماع پہلے اتفاق کے بالمقابل نہیں، بلکہ ایک دوسری صورت پر اجماع سے تعلق رکھتا ہے۔ عوام کا اجماع معتبر یا علما کا؟ اس حوالے سے اجماع کی دو طرح تقسیم کی گئی ہے: 1۔اجماع عام اور 2۔اجماع خاص 1۔اجماع عام کسی فن کے ماہرین کا اسی فن کے کسی مسئلہ پر اتفاق ہو جائے،مثلاً نحو و صرف یا طب کے کسی مسئلہ پر اتفاق ہو جائے۔ متقدمین علماے کرام اس کو حجت تسلیم نہیں کرتےبلکہ اس کو ایک مستند قول کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ [2] 2۔اجماع خاص اس سے مراد وہ اجماع ہے جس کی متعدد تعریفات ہم صفحات بالا میں رقم کر چکے ہیں۔[3] اجماع کے ضمن میں ہم تمام مسلمانوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: 1۔ بچے اور مجنون 2۔ اہل اجتہاد یا اہل حل و عقد 3۔ عام مسلمان اور وہ علما جنہیں اجتہاد کا ملکہ حاصل نہیں۔ ان میں سے پہلی قسم اجماع کے اعتبار سے لفظ ’امت‘ میں داخل نہیں۔ دوسری قسم میں شامل افراد امت میں داخل ہیں اور اجماع میں ان کی موافقت نہایت ضروری ہے۔ تیسری قسم کے بارے میں اختلاف ہے کہ اجماع کے انعقاد میں ان کا اعتبار ہو گا یا نہیں۔[4] جمہور کے نزدیک اجماع میں ایسے فریق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ [5]
Flag Counter