Maktaba Wahhabi

91 - 117
عصبہ ہونے کے سبب دیا جائیگا۔ تابعین کے زمانہ میں اس مسئلہ میں امام ابن سیرین رحمہ اللہ متوفیٰ(110ھ) نے یہ رائے اختیار کی تھی کہ اگر ماں باپ کے ساتھ میت کی بیوی موجود ہو تو ماں کو کل جائیداد کا تہائی حصہ دیا جائیگا، لیکن ماں باپ کے ساتھ اگر شوہر موجود ہو تو کل جائیداد میں سے شوہر کا حصہ پہلے نکالا جائیگا، اس کے بعد بقیہ جائیداد کا تہائی حصہ ماں کو ملےگا ۔یہ قول مذکورہ بالا دونوں اقوال کے درمیان جو قدر مشتر ک ہے اس سے متصادم نہیں ہے، اس لیے یہ اجماع کو نہیں توڑتا۔ اس کی دوسری مثال یہ بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ عصر اول کے فقہاء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اگر بیوی برص، جنون، دماغی خلل میں مبتلا ہو یا اس میں رتق( اندام نہانی کا بند ہونا) یا قرن(شرمگاہ میں ہڈی کا ہونا) جیسے عیوب ہوں تو شوہر کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ایک فریق کی رائے یہ ہے کہ ان تمام عیوب کی موجودگی میں اس کو فسخ کا حق حاصل ہے، دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ چونکہ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے، اس لیے فسخ نکاح کاحق حاصل نہیں ہے، وہ اس کو طلاق دے سکتا ہے۔ اب اگر تیسرا قول یہ ہو کہ فلاں فلاں عیب کی صورت میں نکاح فسخ ہوسکتا ہے اور فلاں عیب کی صورت میں نہیں، تو یہ بھی جائز ہوگا، اس لیے کہ اس سے اجماع مرکب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ [1] کیا اجماع کتاب وسنت کی کسی نص کو منسوخ کرسکتا ہے؟ حالانکہ اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اجماع کا وجود ہی عہد رسالت کے بعدہوا ہے۔ اس کا مرتبہ کتاب وسنت کے بعد ہے اور نسخ بھی عہد رسالت میں ہی ممکن ہے، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ایک گروہ کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے بعض حنفی اور مالکی متکلمین اور بعض معتزلہ جیسے عیسیٰ بن ابان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اجماع سے کتاب وسنت منسوخ ہوسکتے ہیں۔ پھر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہم ان حضرات کی بات کی یہ تاویل کیا کرتے تھے کہ ان کی مراد یہ ہے کہ اجماع سے کسی ناسخ نص کا پتہ چلتا ہے، لیکن بعض لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ لوگ خود اجماع کو ناسخ مانتے ہیں۔ اگر ان کی مراد واقعتاً یہ ہے تو یہ ایک ایسا قول ہے جس سے مسلمانوں کےلیے جائز قرار پاتا ہے کہ وہ اپنے نبی کے بعد اپنے دین میں جو چاہیں تبدیلی کرلیں، جیساکہ نصاریٰ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے ان کے علما کے لیے جائز قرار دیا ہے کہ جس چیز کے حرام ٹھہرانے میں وہ کوئی مصلحت سمجھیں، اسے حرام قرار دے لیں اور جس چیز کے حلال ہونے میں وہ کوئی مصلحت دیکھیں اسے حلال قرار دے لیں، لیکن اسلام میں ایسا نہیں ہوسکتا اور نہ صحابہ کرام اسے اپنے لیے جائز سمجھتے تھے۔‘‘ [2]
Flag Counter