غیره لأنه من مواضع الاجتهاد أو یعلم أنه لو أنکر لا یلتفت إلیه، ونحو ذلك. ‘‘[1] ’’ جو لوگ اجماع سکوتی کی حجیت کے قائل ہیں یعنی حنفیہ اور حنابلہ، انہوں نے اس اجماع کے پائے جانے میں چند شرائط عائد کی ہیں : پہلی شرط تو یہ ہے کہ مجتہدین کے ایک طبقے کا سکوت رضا یا کراہت کی علامات سے خالی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جو رائے کسی ایک مجتہد کی طرف سے پیش کی گئی ہے ‘ وہ اہل زمانہ میں پھیل جائے ۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مسئلے میں غور و فکر اورتحقیق کے لیے ایک مناسب مدت گزر چکی ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ مسئلہ اجتہادی ہو۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں جو اس سکوت کا اعتبار کرنے میں مانع ہوں جیساکہ ظالم حکمران کا خوف یا تحقیق کے لیے مناسب مدت کا نہ پایا جانا یا سکوت اختیار رکرنے والے مجتہدین وہ ہوں ‘جن کی یہ رائے ہو کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ۔ پس یہ لوگ اپنے علاوہ مجتہدین کے اقوال کا اس وجہ سے انکار نہ کرتے ہوں کہ یہ اجتہادی مسائل ہیں یا اس مجتہد کا یہ خیال ہو کہ اگر میں نے انکار بھی کیا تو کوئی توجہ نہ دے گا وغیرہ ۔‘‘ اجماع کی ایک اور تقسیم ایک اور پہلو سے اجماع کی تقسیم یوں بھی کی گئی ہے: اجماع مرکب اجماع غیر مرکب اجماع مرکب علامہ حلبی رحمہ اللہ اجماع مرکب سے متعلق فرماتے ہیں: ’’اگر کسی مسئلے کے حکم پر اتفاق اور علت میں اختلاف ہو تو ایسا اجماع مرکب ہے۔‘‘ [2] ڈاکٹر احمد حسن اجماع مرکب کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مرکب وہ ہے جس میں کسی مسئلہ کے حکم کے بارے میں بہت سی رائیں اکھٹی ہو جائیں لیکن علت حکم میں اختلاف ہو۔ جیسے کسی شخص کو قے آ جائے اور اس حالت میں وہ کسی عورت کو ہاتھ بھی لگا بیٹھے تو امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قے کے سبب سے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کو ہاتھ لگانے کے سبب سے ۔ یہ اجماع دونوں علتوں میں سے ایک کے فاسد ہونے سے حجت کے قابل نہیں رہتا...اجماع مرکب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب مجتہدین کسی مسئلہ میں اختلاف کریں اور بعد کے دور میں مختلف مسالک کے فقہا علیحدہ علیحدہ ان میں سے کسی ایک رائے پر اتفاق کر لیں تو اب ان دو یاتین اقوال پر اجماع کیا جائے گا اور آئندہ لوگوں کو اس کا اختیار نہ ہو گا کہ اس مسئلہ میں کوئی تیسرا قول یا نظریہ اختیار کریں ۔‘‘ [3] |