Maktaba Wahhabi

86 - 117
’’میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے معاملے کو قائم رکھے گا انھیں جو رسوا کرنے کی کوشش کرے، یا ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت )آ پہنچے اور وہ اسی حالت پر ہوں ۔‘‘ ۱۳۔ ترمذی میں اسی مضمون کی ایک حدیث ان الفاظ سے مروی ہے: ((لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى مَنْصُورِينَ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ )). قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ عَلِىُّ بْنُ الْمَدِينِىِّ هُمْ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ. [1] ’’میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اسے جو شخص رسوا کرنا چاہے نقصان نہ پہنچا سکے گا جب تک کہ قیامت قائم نہ ہو جائے۔ محمد بن اسماعیل رحمہ اللہ (متوفیٰ 256ھ) کہتے ہیں کہ علی بن مدینی رحمہ اللہ (متوفیٰ 234ھ) کے نزدیک یہ حدیث کی خدمت کرنے والے علماء ہیں۔‘‘ چونکہ علی بن المدینی رحمہ اللہ محدثین کی خدمات اور اتباع سنت کے مدح سراں ہیں اس لیے وہ ان کی فکری سلامتی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔چنانچہ ان کی نظر میں حدیث کی خدمت کرنے والے ہی السواد الاعظم ہیں کہ جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں۔ ۱۴۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ’’فما رآه المسلمون حسنا فهو عند اللّٰہ حسن وما رآه المسلمون سيئا فهو عند اللّٰہ سيئ. ‘‘[2] ’’جس كو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس چیز کو مسلمان برا تصور کریں وہ اللہ کےنزدیک بھی برا ہے۔‘‘ اگرچہ مذكوره احادیث میں سے بعض کی اسنا د پر کلام کیا گیا ہے لیکن تمام روایات مل کر زور دار انداز سے اجماع کی حجیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ اجماع کی اقسام علماے اصول نے اجماع کی کئی ایک اعتبارات سے مختلف اقسام بیان کی ہیں ۔ مجتہدین کی رائے کی صراحت اور عدم صراحت کے اعتبار سے اجماع کی دو قسمیں ہیں : 1۔ اجماع صریح اور 2۔اجماع سکوتی 1۔ اجماع صریح اس سےمراد وہ اتفاق ہے کہ جس مسئلے پر تمام اہل علم متفق ہوں اور اس رائے کے قبول کرنے کی صراحت
Flag Counter