’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے میں سے اقتدار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف۔ اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور بہت اچھا ہے باعتبار انجام کے ۔‘‘ اس آیت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس مسئلہ پر امت محمدیہ کےعلما باہم متفق ہوں وہ مسئلہ برحق ہوگا۔ اس لیے کہ اس آیت میں ﴿ اُولِي الْاَمْرِ﴾ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، جس کی براہ راست تشریح ارباب حکومت سے جب کہ بالواسطہ ارباب بصیرت و اجتہاد سے بھی کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ﴿ وَ اُولِي الْاَمْرِ ﴾ سے مراد بقول ابن عباس کے اہل علم ہی ہیں۔ ۶۔ علاوہ بریں متعدد احادیث ایسی ہیں جن سے اجماع کی حجیت کا ثبوت ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ اللّٰہ لاَ يَجْمَعُ أُمَّتِى أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلَى ضَلاَلَةٍ وَيَدُ اللّٰہ مَعَ الْجَمَاعَةِ)) [1] ’’بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یا فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘ ۷۔ اسی مضمون کی ایک یہ حدیث بھی ملاحظہ کیجئے: ((إِنَّ أُمَّتِى لَنْ تَجْتَمِعَ عَلَى ضَلاَلَةٍ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلاَفًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ)) [2] ’’بے شک میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی جب تم کسی مسئلے میں اختلاف دیکھو تو جماعت کی اتباع کرو۔‘‘ ۸۔ دین اسلام میں لزوم جماعت کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ملاحظہ فرمائیے: ((فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ وَهْىَ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ)) [3] ’’ جو اس امت میں (خلیفہ منتخب ہونے کے بعد)تفرقہ ڈالنا چاہے جبکہ ساری امت اکٹھی ہو تو اس شخص کو قتل کر دو، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‘‘ ۹۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا، فَمَاتَ، فَمِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ )) [4] ’’جس نے جماعت (ملت اسلامیہ سے) بالشت بھر بھی دوری اختیار کی، پھر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ |