کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ذلك یوجب اتباع سبیل المؤمنین وهذا ما تمسك به الشافعي.‘‘ [1] ’’اس آیت سے مسلمانوں کے اجماع کی اتباع کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہی وہ آیت ہے جس سے امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کی حجیت کو ثابت کیا ہے ۔‘‘ ۲۔ الله تعالیٰ کا اشاد ہے : ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا﴾ [2] ’’ اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں ۔‘‘ وسط کے معنیٰ بہترین اور عادل کے آتے ہیں اور عادل گواہ کا قول حجت ہوتا ہے ۔ [3] ۳۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: ﴿ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾[4] ’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘ ۴۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗ اِلَى اللّٰهِ﴾ [5] ’’اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف ہے ۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ میں مذکورہ دونوں آیات سے متعلق لکھتے ہیں: ’’مفهومه إن اتفقتهم فهو حق. ‘‘[6] ’’ان آیات کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس مسئلہ میں امت محمدیہ متفق ہو جائے وہ برحق ہے ۔‘‘ ۵۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ [7] |