اجماع کےدعوے دعوؤں کے قبیل سے ہوتے ہیں، حقیقی اجماعی مسائل بہت کم ہیں، چنانچہ اجماع کے دعوؤں کو خوب سوچ سمجھ کر لینا چاہیے۔ قریب قریب اجماع کے حوالے سے یہی رائے اصولیوں میں سے امام الحرمین الجوینی (متوفیٰ 478ھ) رحمہ اللہ اور امام غزالی(متوفیٰ 505ھ) رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اجماع ایک ظنی دلیل ہی کا نام ہے، کیونکہ ایسے مسائل نہایت نادر ہیں جن کے بارے میں قطعی کہا جا سکے کہ یہ مجمع علیہ ہیں۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ عام طور جو اجماع کے دعوے کتب فقہ میں موجود ہیں ان کا منکرگمراہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ وقوع اجماع کے اکثر دعوے حقیقی نہیں ہوتے۔ [1] اجماع کے وقوع کا عصر حاضر میں امکان واضح رہے کہ اجماع کے حوالے سے اوپر جس اجماع کو حجت شمار کیا گیا ہے، ایسا اجماع آج کے دور میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آج ہم بھی کہہ سکتے ہیں ’مسلمانوں کا پانچ نمازوں کی فرضیت پر اجماع ہے‘۔ اگر کوئی شخص اس پر یہ اشکال وارد کرے کہ اہل قرآن اور منکرین حدیث تو پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل نہیں ہیں توپھر اجماع کا دعوی کیسے ممکن ہے؟ اس کا یہی جواب ہے کہ نماز اصول دین میں سے ایک اصل ہے اور اس کی فرضیت صحابہ کے دور سے بالاجماع منقول ہے۔ اگر ما بعد کے ادوار میں کچھ گمراہ یا بدعتی فرقوں نے اس کی فرضیت کا انکار کر دیا تو بھی اجماع برقرار رہا۔ اسی طرح آج ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی متعدد قراء ات کےوجود پر، حدیث کی حجیت پر، حدود وتعزیرات، عذاب قبراورقادیانیوں کے غیر مسلم ہونے وغیرہ جیسے امور پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اگرچہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمع ہو کر علماء نے اس قسم کےاجماعی فتووں کو جاری نہیں کیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے جمیع علماء میں سے ہر ہرعالم دین کی رائے ان کے بارے میں ہمیں صراحت سے معلوم ہے، لیکن اس کے باوجود اجماع کا دعوی جائز ہے اور یہ دعوی اسی معنیٰ میں ہو گا‘ جس کو امام شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ پس ہمارے نزدیک اجماع سے مراد دین کے وہ صریح و بنیادی مسائل ہیں کہ جن کے بارے علماء کی ایک معتد بہ جماعت اپنی رائے کا اظہار اپنے قول اور عمل سے کرے اور بقیہ علماء میں سے کسی بھی عالم دین سے جب اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ قولی یا عملی صراحت سے اسی رائے کا اظہار کریں ۔ اجماع کی حجیت اجماع کی قطعیت کے سلسلہ میں درج ذیل متنوع قسم کے دلائل ملاحظہ کیجئے: ۱۔ ﴿ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا﴾ [2] ’’ جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے باوجود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف |