Maktaba Wahhabi

79 - 117
أمر من الأمور. ‘‘[1] ’’وہ اس امت کے اہل اجتہاد لوگوں کے کسی زمانے میں کسی معاملے پر باہم اتفاق کر لینے سے عبارت ہے۔‘‘ علامہ آمدی رحمہ اللہ (متوفیٰ 631ھ) یوں رقمطراز ہیں : ’’الإجماع عبارة عن اتفاق جملة أهل الحل والعقد من أمة محمد من عصر من الأعصار على حکم واقعة من الوقائع. " [2] ’’اجماع سے مراد کسی زمانے میں امت محمدیہ کے جملہ اہل حل و عقد کا کسی واقعے کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینا۔‘‘ علامہ علاؤ الدین رحمہ اللہ ( متو فیٰ730)فرماتے ہیں : ’’وقیل وهو الأصح إنه عبارة عن اتفاق المجتهدین من هذه الأمة في عصر على أمر من الأمور. ‘‘[3] ’’ ایک قول کے مطابق، اور یہ قول صحیح ترین ہے ‘ اجماع سے مراد اس امت کے مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی معاملے پر اتفاق کر لینا ہے ۔‘‘ اجماع کے وقوع کا امکان اوپر اجماع کی جو تعریف کی گئی ہے اس کی رو سے کیا اس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان ہے؟ اس بارے میں جمہور اصولیین کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے اورعملاً صحابہ کرام کے زمانہ میں ہوچکا ہے، چنانچہ صحابہ کرام نے بہت سے احکام پر اجماع کیا ہے۔ ان میں سے یہ بھی ہے کہ پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا۔ دوسرا یہ کہ اگر سگے بہن بھائی نہ ہوں تو باپ کی طرف سے ہونے والے بہن بھائیوں کو سگے بہن بھائیوں کی جگہ دی جائے گی۔ تیسرا یہ کہ مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے نہیں ہوسکتا۔ چوتھا یہ کہ مفتوحہ اراضی کو فاتحین کے درمیان نہیں بانٹا جائے گا کہ جس طرح دوسرے اموال غنائم بانٹ دیے جاتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ (متوفیٰ 204ھ) اگرچہ اجماع کے ممکن الوقوع ہونے کے قائل ہیں، لیکن وہ عہد صحابہ کے بعد اس کے وقوع کو انتہائی نادر اور مشکل شمار کرتے ہیں کیونکہ جن علماء کا اجماع معتبر ہے وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے اور ان کا باہم ملاقات کرنا مشکل ہوگیا۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اجماع ممکن الوقوع تو ہے لیکن اس کے واقع ہونے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کسی ایک مجلس یا مکان میں جمیع علماء و فقہاء جمع ہوں اوراپنی آراء کا صراحت سے اظہارکریں یا ایک عالم دین جمیع بلاد اسلامیہ کا سفر کرتے ہوئے تمام فقہا کی آراء جمع کرے، بلکہ اس
Flag Counter