’’ ’جمع‘ سے مراد مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے قریب کرتے ہوئے آپس میں ان کو ملا دینا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے :میں نے اس کوجمع کیا تو وہ جمع ہو گیا۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے :’اور روز قیامت سورج اور چاند کو جمع کیا جائے گا۔‘ ایک اور آیت میں ارشاد ربانی ہے :’اس نے مال جمع کیا اور اس کو محفوظ رکھا۔‘ ایک اور آیت میں ارشاد ہے :’اس نے مال کو جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا۔‘ ایک اور آیت میں ارشاد ہے :’اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا، پھر وہ ہمارے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے گا۔‘...باب افعال سے یہ لفظ اکثر و بیشتر ان چیزوں کے جمع کرنے کے بارے میں آتا ہے جو فکر سے متعلق ہوں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’تم اپنی تدبیرکو اپنے شریکوں سمیت تیارکر لو ‘...اسی طرح اللہ نے فرمایا:’تم اپنی چال کو پختہ کر لو۔‘ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے یعنی اس مسئلے میں ان کی آراء باہم متفق ہیں۔‘‘ علامہ سید مرتضی الزبیدی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1205ھ) لکھتے ہیں: ’’والإجماع أی إجماع الأمة الإتفاق، یقال: هذا أمر مجمع علیه أی متفق علیه. ‘‘ [1] ’’اجماع امت سے مراد امت کا اتفاق ہے۔ مجمع علیہ امر اس کو کہا جاتا ہے کہ جو متفق علیہ ہو۔‘‘ اصطلاحی تعریف ’اجماع‘ کی تعریف کے سلسلے میں ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود ہے، لیکن حقیقتاً یہ اختلاف لفظی ہے۔ سب کی بیان کردہ تعریفات کا مضمون قریب قریب ایک ہی ہے ۔ امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ (متوفیٰ 505ھ) اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’أما تفهیم لفظ الإجماع فإنما نعني به اتفاق أمة محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاصة على أمر من الأمور الدینیة. ‘‘[2] ’’جہاں تک اجماع کے لفظ کے مفہوم کا معاملہ ہے تو اس سے ہماری مراد امت محمدیہ کا وہ اتفاق ہے جو خصوصی طور امور دینیہ میں ہو۔‘‘ امام بزدوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 730ھ) اجماع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’إنه عبارة عن اتفاق المجتهدين من هذه الأمة في عصر على أمر من الأمور. ‘‘[3] ’’وہ اس امت کے اہل اجتہاد لوگوں کے کسی زمانے میں کسی معاملے پر باہم اتفاق کرلینے سے عبارت ہے۔‘‘ شیخ محمد بن علیٰ تھانوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 730ھ) فرماتے ہیں: ’’وفي اصطلاح الأصوليين هو إتفاق خاص وهو اتفاق المجتهدين من أمة محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر علي |