Maktaba Wahhabi

74 - 117
کوئی روایت امہات الکتب میں موجود ہو، جن کی اسناد پایہ کے اعتبارسے انتہا درجہ کی قابل اعتماد ہیں اور اُمہات الکتب کی یہ روایت عقل کے بھی خلاف معلوم ہوتی ہو تو اس کوموضوع قرار نہیں دیا جائے گا، کیونکہ موضوع ہونے میں خلاف عقل ہونے کے ساتھ ساتھ امہات الکتب میں اس کا نہ پایا جانا بھی ضروری ہے۔ جس کاصریح مطلب یہ نکلتا ہے کہ امہات الکتب میں مروی کسی روایت کو صرف متن کی بنیاد پر خلاف عقل ہونے کی وجہ سے قطعی طور پر موضوع قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ کسی حدیث کی صحت کا اصل دارومدار خبر مقبول کی پہلی تین اساسی شرائط کے وجود پرہے، جبکہ ابن جوزی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول اس کے برخلاف معلوم ہوتا ہے۔ ’اہل درایت‘ بالخصوص علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اس طرح کے اقوال کو پیش کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نقدسند کی طرح محدثین کے نزدیک نقد ِمتن ایک مستقل معیار تحقیق ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ امام ابن جوزی رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہو رہا ہے ، کیونکہ جس قول کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے اس قول کے ذکر کرنے کے معا بعد اِمام موصوف رحمہ اللہ نے اپنے قول کی وضاحت خود کردی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی عموماً دو شکلیں ہوتی ہیں: ۱۔ بعض بے دین اور جھوٹے راوی کسی موضوع حدیث کو ثقہ راویوں کی حدیث میں داخل کردیتے ہیں، پھر یہ داخل شدہ حدیث ثقہ راوی کی حدیث سمجھ کر روایت کی جاتی۔ مثلاً ابن ابی العوجاء جو حماد بن سلمہ کا سوتیلا بیٹا تھا، وہ ثقہ راوی کی حدیث میں یہ حرکت کیا کرتا تھا۔ حدیث: ((إن سفینة نوح طافت بالبیت سبعا وصلت خلف المقام رکعتین)) اسی قبیل سے ہے۔ ۲۔ کوئی راوی جھوٹے اور ضعیف لوگوں سے حدیث سنتا ہے، جس کو یہ لوگ اپنے شیخ سے روایت کرتے تھے لیکن روایت حدیث میں حرص کی وجہ سے یہ راوی درمیان سے جھوٹے اور ضعیف لوگوں کے نام نکال کر براہ راست شیخ سے نقل کرنے لگتا تھا، جس سے حدیث مقلوب ہوجاتی تھی۔ [1] اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ نے دونوں مذکورہ شکلوں کی معرفت کو حد درجہ مشکل بتایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’فإن قوی نظرك ورسخت في هذا العلم فهمت مثل هذا وإن ضعفت فاسأل عنه وإن کان قد قلّ من یفهم هذا بل عدم. ‘‘ [2] ’’اگر تیری نظر قوی ہے اور اس علم میں رسوخ حاصل ہے تو اس جیسی صورت کو سمجھ لے گا اور اگر کمزور ہے تو اس کے بارے میں پوچھ لے، اگرچہ اس کے سمجھنے والے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘‘
Flag Counter