امہات الکتب سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ عقلاً ونقلاً محال بھی ہیں اور اسنادی اعتبار سے یا موضوع ہیں یا ضعیف یا منکر۔[1] مثال کے طور پر انہوں نے اس روایت کو بیان کیا ہے: ’’یکون في أمتی رجل یقال له محمد بن إدریس أضرعلى أمتي من إبلیس ویکون في أمتی رجل یقال له أبوحنیفة هو سراج أمتي. ‘‘ [2] ’’میری امت میں ایک شخص ایسا ہو گا کہ جس کا نام محمد بن ادریس ہو گا اور وہ میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ نقصان دہ ہو گا۔ اور میری امت میں ایک شخص ایسا ہو گا کہ جس کا نام ابو حنیفہ ہو گا اور وہ میری امت کا چراغ ہو گا۔‘‘ امام ابن جوزی رحمہ اللہ کے مطابق چونکہ یہ روایت حدیث کی معتبر اور مشہور کتابوں میں نہیں ہے اس لئے موضوع ہے۔مزید برآں مخالفت عقل کی بھی انہوں نے مثالوں سے وضاحت کردی ہے، جیسا کہ اس ضمن میں انہوں نوح کی کشتی کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور پھر مقام ابراہیم پر جاکر دو رکعت نماز ادا کرنے کی روایت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی امہات الکتب سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ عقلاً بھی محال ہے اور اسنادی پہلو سے بھی بالکل من گھڑت ہے، اس لئے موضوع ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ ابن الجوزی رحمہ اللہ سے اس قول کو پیش کرنے والے’ اصول کی مخالفت‘ کا مطلب اپنے عقلی درایتی اصول لیتے ہیں، تویہ بات قطعاً کسی محدث بشمول ابن جوزی رحمہ اللہ کا موقف نہیں۔ اَئمہ فن کی مذکورہ تمام تصریحات سے قطع نظر خود اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’الموضوعات‘ میں باقاعدہ ’’کیف تُحکم على الحدیث صحة وضعفا؟‘‘ کا عنوان قائم کرکے وضاحت فرمائی ہے کہ کسی حدیث کی صحت وضعف کی بنیاد قرائن کے بجائے حتمی چیزوں یعنی راوی اور سند سے متعلقہ امور پر ہے۔[3] پھر خود اسی کتاب کے ایک اور مقام پر کیف یُعرف الحدیث المنکر؟ کاعنوان قائم کرکے یہ اصول بیان کیا ہےکہ ’’الحدیث المنکر یقشعر له جلد الطالب للعلم وینفر منه قلبه في الغالب. ‘‘ [4] پس اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ کے نزدیک کسی حدیث کے موضوع قرار پانے کا واحد مدار اسی بات پر نہیں ہے کہ وہ روایت خلاف عقل ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی روایت کے موضوع ہونے میں اس بات کی بھی شرط عائد کردی ہے کہ اس کا وجود امہات الکتب میں نہ پایا جاتا ہو۔ اس سے یہ بات ازخود سمجھ آرہی ہے کہ اگر |