کیا ہے ، جبکہ باقی دو طبقات میں پائی جانے والی حدیث کو خوب اہتمام سے انتہائی چھان پھٹک کر کے لینا چاہیے۔ [1] گویا اِمام ابن الجوزی رحمہ اللہ یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو روایت کتب ستہ اور موطا اِمام مالک میں دستیاب نہ ہوعموماً ضعیف ہوتی ہے ۔ اسی لیے ’خلاف اصول‘ کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’متی رأیت حدیثا خارجا عن دواوین الإسلام کالمؤطأ ومسند أحمد والصحیحین وسنن أبي داؤود ونحوهافانظر فيه فإن کان له نظیر من الصحاح والحسان قرب أمره وإن ارتبت فیه ورأیته يباين الأصول فتأمل رجال إسناده واعتبر أحوالهم من کتابنا المسمی بالضعفاء والمتروکین فإنك تعرف وجه القدح فیه. ‘‘ [2] ’’جب تم کسی حدیث کو اسلام کے دواوین مؤطا، مسند احمد، صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن ابو داؤد اور اس کی مثل کتابوں سے خارج دیکھو اور اس کی نظیر صحیح وحسن حدیثوں میں موجود ہو ، تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہے۔ اور اگر تمہیں شک ہو، نیز وہ حدیث ’اصول‘ کے خلاف ہو تو سند اور راویوں کے حالات پر غور کرو۔ ہماری کتاب جس کا نام ’’کتاب الضعفاء والمتروکین‘‘ہے، اس سے راویوں کا حال معلوم ہوجائے گا اور حدیث میں خرابی کا پتہ چل جائے گا۔‘‘ بلکہ بعض علما نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: ’’ کلی قواعد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ احادیث نبویہ، مسائل فقہیہ اور تفاسیر قرآنی انہی کتب سے نقل کی جائیں کہ جو متداول ہیں، کیونکہ یہ کتب محفوظ ہیں اور ان کے علاوہ دیگر کتب میں زنادقہ اور ملاحدہ نے موضوع حدیثیں شامل کردی ہیں ، جس کی بنا پر وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔‘‘ [3] یاد رہے کہ مذکورہ ضابطہ اکثری ہے، کلی نہیں۔ اسی لیے امیر صنعانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1182ھ) نے فن حدیث کی معروف کتاب توضیح الافکار میں ایک مستقل باب ’’باب عدم انحصار الصحیح في کتب الحدیث‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے، کہ جس میں اس خیال کی تردید کی گئی ہے۔[4] اِمام سیوطی رحمہ اللہ نے ’تدریب الراوی‘ میں علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے بیان کردہ تینوں قرائن کو ذکر کرنے کے بعد ان اصولوں کی امثلہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان فرمائی ہیں،کہ جن میں اکثر روایات حدیث کی |