Maktaba Wahhabi

75 - 117
نتیجہ بحث ’اہل درایت‘جس آیت کریمہ کو نقدِ روایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے عام طور پر پیش کرتے ہیں: ﴿ لَوْ لَا اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا١ وَّ قَالُوْا هٰذَا اِفْكٌ مُّبِيْنٌ﴾ ’’تم نے جب اسے سنا تو کیوں نہ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنوں کے بارے میں اچھا گمان کیا اور یہ کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ سے’اہل درایت‘ کا اپنے اصولِ درایت پر استدلال كرنا عجیب ہے، کیونکہ جس آیت کو انہوں نے نقدِ روایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے پیش کیا ہے وہ ’اصولِ درایت‘ کی دلیل کے بجائے اس طریقہ تحقیق کے رد اور خبر کو ’اصول روایت‘ سے پرکھنے کی دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں چند پہلو درج ذیل ہیں: ۱۔ مذکورہ آیت کریمہ کو رب ذوالجلال نے واقعۂ افک کے ضمن میں پیش فرمایا ہے۔عربی زبان میں افک بہتان کو کہتے ہیں جس کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ ۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اس بہتان کو باندھنے والوں نے نہ صرف یہ کہ مشاہدہ سے اس بات کو اخذ نہ کیا تھا، بلکہ انہوں نے تہمت لگاتے ہوئے چار گواہیاں بھی پیش نہ کی تھیں۔ ۳۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاکیزہ انسان کی بیوی ہونا اس پر مستزاد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نےفرمایاہے: ﴿ الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ﴾لہٰذا ایسی بات کو سنتے ہی صحابہ کرام کو رد نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اس وجہ سے کہ ایسی (بے سندی) تہمت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ بیوی پر لگایا جارہا ہے اور مسلمانوں میں سے بھولے بھالے لوگ ان امور پر غور نہیں کررہے۔مزید برآں اس واقعہ کو چار گواہوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سنتے ہی رد کردینا چاہیے تھا۔ ’اَہل درایت‘جن دیگر آیات و احادیث کا حوالہ دے کر اپنے درایتی اصولوں کا اثبات کرتے ہیں، ان تمام کے بارے میں اتنا عمومی جائزہ کافی ہے کہ مذکورہ اقوال ائمہ کی طرح یہ تمام آیات واحادیث بھی دراصل ضعیف یا موضوع احادیث کو پہچاننے کی علامات کے ضمن میں شریعت مطہرہ میں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ان کو پیش کرکے سند سے قطع نظر ،نقدِمتن کا اثبات کسی صورت ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
Flag Counter