جائے اور جن علماء نے ایسی احادیث کی عقل کے ساتھ موافقت کو واضح کیا ہے، ان سے سنی ہوئی بات کو اَن سنی کردے۔ جہاں تک کتاب اللہ اور سنت متواترہ کے خلاف حدیث کو رد کرنے کے اصول کا تعلق ہے تو اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ دراصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث جو طرق صحت سے ثابت ہوچکی ہو اور اسے فن حدیث کے ماہر علماے کرام و محدثین عظام رحمہم اللہ قبول کرتے اور اپنی مصنفات میں ذکر کرتے آرہے ہوں، وہ کتاب اللہ یا سنت متواترہ کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی، کتاب و سنت کے خلاف وہی حدیث ہوتی ہے جو صحیح ثابت نہ ہو۔ اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 311 ھ)نے اسی لئے فرمایا تھا: ’’لا أعرف أنه روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیثان بإسنادین صحیحین متضادان فمن کان عنده فلیأت به حتی أؤلف بینهما. ‘‘ [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ مروی دو احادیث بھی ایسی نہیں ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے آپس میں مخالف ہوں، جس کسی کے پاس ایسی دو احادیث ہیں وہ لے آئے تاکہ میں ان میں مطابقت اور مفاہمت واضح کر دوں۔‘‘ اجماع کے خلاف حدیث کو رد کرنے کے اصول کو بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مکاتب فکر کسی مسئلہ پر اپنے مذہبی یا مسلکی اتفاق کو اجماع کا نام دے دیتے ہیں اور اس کے خلاف آنے والی حدیث کو مخالفت ِاجماع کے دعویٰ سے رد کر دیتے ہیں، حالانکہ متعدد علماء امت اس مسئلہ میں مخالف رائے رکھتے ہیں کہ جس پراجماع کا دعویٰ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ اور کسی بھی مسئلہ میں ایک مجتہد کی مخالفت کی صورت میں بھی اجماع متحقق نہیں ہوسکتا۔ امام ابوالولید باجی رحمہ اللہ (متوفیٰ 474 ھ)کہتے ہیں: ’’لاینعقد الإجماع إلا باتفاق العلماء جملة فإن شذ منهم واحد لم یکن إجماع. ‘‘ [2] ’’جب علما کا اتفاق ہوجائے تو اجماع کہلاتا ہے۔ کسی ایک عالم کے اختلاف کی صورت میں اجماع نہیں ہوگا۔‘‘ یہ دعویٰ کہ’’ وہ بات جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہو، اسے ایک ہی راوی بیان کرے تو اسے بھی رد کردیا جائے گا۔‘‘ اسلاف امت کے ہاں مسلم قاعدہ نہیں ہے۔ اِمام نووی رحمہ اللہ (متوفیٰ 676 ھ) فرماتے ہیں: ’’اہل علم کے ہاں ذخیرہ حدیث میں تین احادیث ایسی ہیں جن پر پورے اسلام کا دارومدار ہے: ’’إنما الأعمال بالنیة. الحلال بین والحرام بین و بینهما مشتبهات ... الخ. من حسن اسلام المرء ترکه مالا یعینه. ‘‘ [3] |