Maktaba Wahhabi

68 - 117
’’ حدیث منکر وہ ہوتی ہے کہ جس کا ظاہر ی متن ہی سے طالب علم کو وحشت ہوتی ہے اور اس کا دل اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہیں، لیکن یہ اکثر ہوتا ہے ، ہر صورت نہیں۔‘‘ المختصرائمہ محدثین رحمہم اللہ کے ارشادات میں خود انہوں نے اپنی تصریحات کے مطابق اور بعد میں آنے والے ماہرین فن حدیث کے ہاں معرفت ضعیف، معرفت موضوع یا معرفت منکر وغیرہ جیسے عنوانات سے جو بحث ملتی ہے، اس میں متن سے متعلق ضوابط کو انہوں نے حدیث کے مردود ہونے کے لیے بطور قرائن بیان کیا ہے۔ چنانچہ محدثین کرام رحمہم اللہ کا تحقیق حدیث کے میدان میں ایک عرصہ خدمات سرانجام دینے کے بعد جو ایک فنی ذوق بن جاتا ہے، روایت پر حکم لگاتے ہوئے اس کا ٹھیک وہی مقام ہے جو ہماری روزہ مرہ کی زندگی میں عدالتوں میں شاہدین واقعہ کے ساتھ کسی تجربہ کار قاضی کے تجربہ کا ہوتا ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کے درایتی موقف کا تجزیہ ’اہل درایت‘عام طور پر خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے حوالے سے ضعیف حدیث کو پہچاننے سے متعلق جو ضوابط ذکرکرتے ہیں تو وہ بھی موضوع حدیث کی علامات اور قرائن کے قبیل سے ہیں۔ لیکن وضاحت کے پیش نظر خطیب رحمہ اللہ کی جو عبارت اوپر پیش کی گئی ہے اس کا جزوی تجزیہ ہم ذیل میں کیے دیتے ہیں۔ خطیب رحمہ اللہ کی عبارت کا ملخص یہی ہے کہ ان کے نزدیک ثقہ اور مامون روای کی بیان کردہ روایت کو مندرجہ ذیل امور کے پیش نظر رد کردیا جائے گا: ۱۔ وہ تقاضائے عقل کے خلاف ہو۔ ۲۔ وہ کتاب اللہ کی نص یا سنت متواترہ کے خلاف ہو۔ ۳۔ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ ۴۔ ایسی روایت کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ ۵۔ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتاً لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہوں۔ [1] ان پانچوں امور پر ترتیب وار ذیل میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک تقاضائے عقل کے خلاف کسی حدیث کو رد کردینے کا تعلق ہے تو اس قاعدے کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بعض حضرات اپنی ذاتی عقل کو یا بعض مکاتب فکر اپنی مخصوص عقل و فکر کو عقل کل کا نام دے کر اس کے خلاف سمجھ آنے والی ہر حدیث کو رد کردینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ علما حدیث ہی کی طرف سے اس کی عقل کے ساتھ مطابقت کی صراحت موجود ہوتی ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اپنی ذاتی یا جماعتی عقل کو عقل عام قرار دے کر اس کے خلاف آنے والی احادیث کو رد کرتا
Flag Counter