انہوں نے محض ان اُصولوں کے اطلاقات کے بعد نتائج کی صورت میں احادیث میں سے جو مردود یا مقبول احادیث میں نکھار ہوا تو ان کو جمع کرکے مستقل تصنیفات میں اکٹھا کردیا گیا۔ جیسا کہ اسی قسم کا کام دور حاضر کے نامور محدث علامہ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1420 ھ) نے ’’سلسلة الأحادیث الصحیحة‘‘ اور ’’سلسلة الأحادیث الضعیفة‘‘ کے نام سے دو مستقل انسائیکلو پیڈیاز تیار کر کے کیا ہے۔ چنانچہ ان سب ضوابط کا ائمہ مذکوره کی طرف سے موضوعات سے متعلقہ کتب میں درج ہونا اس بات کی قوی اور سادی دلیل ہے کہ یہ اصول ضعف ِحدیث کے بنیاد کے طور پر نہیں بلکہ موضوع حدیثوں میں پائی جانے والی مشترکہ اشیا کے جائزہ کے بعد ان کے حوالے سے اکثری قواعد پرمشتمل ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ فن حدیث کے ماہرین نے ضعیف اور موضوع احادیث کو عمومی طور پر جاننے کے لیے کچھ ایسی علامات ذکر فرمائی ہیں کہ جن کے ذریعے متنِ حدیث کو دیکھ کر روایت کی کمزوری کو جانا جا سکتا ہے ۔ ان علامات کا تفصیلی ذکر مشہور اہل علم میں سے خاص طور پر اِمام ابن قیم نے ’’المنار المنیف‘‘ میں، حافظ سیوطی (متوفیٰ911ھ) نے ’’اللآلی المصنوعة‘‘ میں ، ملاعلی قاری (متوفیٰ1014ھ)نے ’’الأسراء المرفوعة ‘‘ میں ، اِمام ابن جوزی نے ’’الموضوعات ‘‘ میں ، اِمام سخاوی نے ’’المقاصد الحسنة ‘‘ اور ’’فتح المغیث‘‘ میں اور ابوالحسن علی بن محمد (متوفیٰ 963ھ) رحمہم اللہ نے ’’تنزيه الشريعة الموفوعة ‘‘ میں کیا ہے ۔ ان تمام کتب میں ذکر کردہ اصولوں؍ علامتوں کو مجموعی طور پر علامہ محمد تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’ حدیث کے درایتی معیار‘ میں بالتفصیل بیان کرتے ہوئے 26 متعدد اصول اور علامات ضُعف ذکر کی ہیں ۔ [1] موضوع اور ضعیف حدیث کی معرفت کے قواعد کی نوعیت ان قواعد کے بارے میں خود محدثین کرام رحمہم اللہ نے واضح کیا ہے کہ اس قسم کی علامات کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ چنانچہ اس ضمن وہ بعض باتیں واضح کرتے ہیں: ۱۔ یہ ضوابط صحیح یا ضعیف کی معرفت کے قواعد ہیں، ناکہ تحقیق روایت میں حکم ان قواعد کی بنیاد پر لگتا ہے۔ جیساکہ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ [2] ۲۔ یہ قواعد اکثری ہیں، کلی نہیں۔ یعنی ایسی صحیح روایات بھی موجود ہیں کہ جن کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس سلسلہ میں مل جاتی ہیں کہ وہ قرآن کریم یاسنت معلومہ یا عقل وحواس سے حاصل ہونے والے علم کے بظاہر مخالفت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں ابن جوزی رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں: ’’وینفر منه قلبه في الغالب. ‘‘ [3] |