کرنے کے بعد مستقلاً اس موضوع کو بھی زیر بحث لاتے ہیں کہ وہ علامات کونسی ہیں جو موضوع یا ضعیف حدیث میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ صحیح حدیثوں کے بارے میں اِمام حاکم رحمہ اللہ (متوفیٰ 405ھ)نے اپنی کتاب ’’معرفة علوم الحدیث‘‘ میں ربیع بن خثیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 64ھ)کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’له ضوء کضوء النهار. ‘‘[1] ’’صحیح حدیثوں میں روشنی دن میں روشنی کی طرح ہوتی ہے۔‘‘ ضعیف حدیثوں کے بارے میں ربیع بن خثیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’له ظلمة کظلمة اللیل. ‘‘[2] ’’ضعیف حدیثوں میں تاریکی رات کی تاریکی کی طرح ہوتی ہے۔‘‘ موضوع روایت کی پہچان کی علامات کے سلسلے میں حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کچھ علامات کا ذکر کرتے ہیں: ’’إنما یعرف کون الحدیث موضوعا بإقرار واضعه أو ما یتنزل منزلة إقراره، وقد یفهمون الوضع من قرینة حال الراوی أو المروی. ‘‘ [3] ’’موضوع حدیث اس طرح پہچانی جاتی ہے کہ اس کا واضع خود اقرار کر لے یا اقرار کے قائم مقام کوئی چیز ظاہر ہو اور کبھی اہل علم راوی اور مروی (یعنی متنِ حدیث ) کی حالت کے قرینے سے بھی موضوع حدیث کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ۔‘‘ اس حوالے سے ملا علی قاری رحمہ اللہ موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں: ’’والأحادیث الموضوعة علیها ظلمة ورکاکة ومجاز فات باردة تنادی على وضعها واختلافها. ‘‘ [4] ’’موضوع حدیثوں میں ایک خاص قسم کی تاریکی، سطحیت اور بے تکا پن پایا جاتا ہے، جو اس کے جعلی ہونے کو پکار پکار کر کہتا ہے۔‘‘ لیکن یہ بات یاد رہے کہ متنِ حدیث کو دیکھ کر کسی روایت کے موضوع ہونے کا پتہ لگانا ہر کس وناکس کا کام نہیں ، بلکہ یہ صرف اسی فنِ حدیث کے ماہر کا کام ہے، جو سننِ صحیحہ کی معرفت میں انتہائی پختہ ہو ، سنن وآثار اور |