حدیث کو محض متن میں پائے جانے والی کمزوری کی وجہ سے رد کردیتے ہیں، حالانکہ امر واقعہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ درایتی معیار کے حاملین موضوع یا ضعیف حدیث کی تعریف اور اس کے پہچاننے کی علامات میں فرق نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’حدیث کے درایتی معیار‘ میں ملا علی قاری کی ’’الأسرار المرفوعة‘‘ یا اِمام سخاوی کی ’’فتح المغیث‘‘ یا اِمام ابن قیم رحمہ اللہ کی ’’المنار المنیف‘‘ کے حوالے سے جو درایتی اصول بیان کئے ہیں وہ سارے معرفت وضع الحدیث کے کلیات وقواعد ہیں۔ جنہیں محدثین قرائن کے قبیل سے بیان کرتے ہیں، ناکہ اس طور پر کہ کونسی حدیث کب موضوع ہوتی ہے یا کب ضعیف ہوتی ہے ۔ محدثین کرام رحمہم اللہ اس پر متفق ہیں کہ موضوع یا ضعیف حدیث وہی ہوتی ہے جس میں کوئی واضع یا مجروح راوی پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اصول حدیث کی تمام عربی کتب میں رکاکت الفاظ، مخالف قرآن روایت، عقل عام یا صریح عقل کے مخالف روایت، متعین تاریخی حقائق کے خلاف روایت، حس کے مخالف حدیث وغیرہ جیسے اصولوں کو ’’کیف یُعرَف الحدیث الموضوع‘‘ کا عنوان قائم کرکے بیان کیاگیا ہے اوریہ تمام محدثین جب موضوع یا ضعیف حدیث کی تعریف کرتے ہیں تو تعریف الموضوع کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: ’’إذا کان سبب الطعن في الراوي هو الکذب على رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فحدیثه یسمى الموضوع. ‘‘ [1] اسی طرح تمام ائمہ حدیث ضعیف حدیث کی تعریف میں واضح کرتے ہیں کہ جو روایت درجہ حسن کو نہ پہنچ سکے ، ضعیف کہلاتی ہے۔ اِمام بیقونی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1080ھ) اپنے مشہور منظومہ اصول حدیث میں فرماتے ہیں: ’’کل ما عن رتبة الحسن قصر فهو الضعیف وهو أقسام کثر. ‘‘ اسی طرح اِمام سخاوی رحمہ اللہ خبر صحیح اور خبر ضعیف کی تعریف کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’ خبر صحیح وہ ہوتی ہے جس کی سند متصل ہو اور اس کے راوی عادل و ضابط ہوں۔ ضبط قوی ہو توروایت کو صحیح اور ضبط خفیف ہو تو روایت کو حسن کہتے ہیں۔ چنانچہ اگر روایت میں روای عادل نہ ہو یا راوی کا ضبط ضعیف ہو تو وہ روایت محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ضعیف کہلائے گی۔‘‘ [2] صورت حال یہ ہے کہ جب محدثین کرام رحمہم اللہ نے ضعیف یا موضوع احادیث کا عام طور پر جائزہ لیا یا ان پر آگاہی کے لیے تصانیف مرتب کیں تو انہوں نے اس قسم کی احادیث میں چند ایسی عمومی علامات پائیں کہ جو حدیث بھی اپنے رواۃ کی نسبت سے ضعیف یا موضوع ثابت ہوئی ان میں یہ علامات پائی گئیں۔ اسی سے محدثین رحمہم اللہ نے موضوعات سے متعلقہ اپنی کتب میں یہ اسلوب اختیار فرمایا کہ موضوع حدیث کی تعریف ذکر |