Maktaba Wahhabi

62 - 117
میں’موضوع‘ کی بحث کے ضمن میں ان علامات کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے جو عام طور پر موضوع روایات کے متن میں پائی جاتی ہیں۔ ’اہل درایت‘ نے اِمام ابن قیم ،ملا علی قاری ، اِمام سخاوی اور اِمام ابن جوزی رحمہم اللہ کو ہی نقدروایت کے درایتی معیار میں اصل بنیاد کے طور پر بیش فرمایا ہے۔بلکہ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تصنیف ’حدیث کا درایتی معیار‘ میں انہی اشخاص کے حوالے سے 26 کے قریب درایتی اصول ذکر کیے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ یہی وہ ضابطے ہیں جن کی روشنی میں ایک حدیث کو قبول کرنے کا معیار قائم ہوتا ہے۔ [1] اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ کا موقف ۱۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ نے نقد روایت میں متن سے متعلق ضوابط کو نہایت خوبصورت طریقے سے مختصر اور جامع الفاظ میں یوں سمیٹ دیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ’’ما أحسن قول القائل: إذا رأیت الحدیث یباین المعقول أویخالف المنقول أو یناقض الأصول فاعلم أنه موضوع. ‘‘ [2] ’’ کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کوئی روایت عقل و نقل یا اصول کے خلاف ہو تو وہ موضوع ہے۔‘‘ ۲۔ اس سلسلہ میں ابن جوزی رحمہ اللہ کا ایک اور مشہور قول یہ ہے: ’’الحدیث المنکر یقشعر له جلد الطالب للعلم وینفر منه قلبه في الغالب. ‘‘ [3] ’’ حدیث منکر وہ ہوتی ہے کہ جس کے ظاہر ی متن ہی سے طالب علم کو وحشت ہوتی ہے اور اس کا دل اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے لیکن یہ حالت اکثر ہوتی ہے ، ہر صورت نہیں۔‘‘ ۳۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ کا ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ فرماتے ہیں: ’’وقد یکون الإسناد کله ثقات ویکون الحدیث موضوعا أو مقلوبا. ‘‘ [4] ’’ کبھی کل سندیں ثقہ ہوتی ہیں، پھر بھی حدیث موضوع یا مقلوب ہوتی ہے۔‘‘ بعض محدثین رحمہم اللہ کی طرف منسوب درایتی عقلی اصولوں کا جائزہ حدیث کے درایتی معیار کے ضمن میں علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اور ان کے ہم فکر حضرات کو دراصل محدثین کرام رحمہم اللہ کے فن میں موجود مباحث میں عدم نکھار کے وجہ سے یہ مغالطہ لگا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کسی
Flag Counter