Maktaba Wahhabi

61 - 117
’’المنار المنیف في الحدیث الصحیح والضعیف‘‘ کے نام سے مستقل کتاب تصنیف فرمائی ہے، جس میں انہوں نے ان درایتی اصولوں کا تذکرہ وضاحتاً کیا ہے کہ اگر وہ کسی بھی حدیث میں پائے جائیں تو حدیث ضعیف ہوگی۔ مثلاً ابن قیم رحمہ اللہ حدیث ((من عشق وکتم وعفى وصبر غفر اللّٰہ له وأدخله الجنة)) پریوں تبصرہ فرماتے ہیں: ’’فلو کان إسناد هذا الحدیث کالشمس کان غلطا ووهما. ‘‘ [1] ’’اگر اس حدیث کی سند آفتاب کی طرح ہوتی تو بھی یہ غلط اور وہم ہوگی۔‘‘ ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ کا موقف اسی طرح ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ نے ’موضوعات‘ سے متعلقہ اپنی معروف کتاب میں فرمایا ہے: ’’قرینة في المروی كمخالفة لمقتضی العقل بحیث لا یقبل التأویل ویلتحق به ما یدفعه الحس والمشاهدة والعادة. ‘‘ [2] ’’ مروی (متن) میں وضعی ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ وہ مقتضائے عقل کیخلاف اس طرح ہو کہ کوئی تاویل نہ قبول کرسکے، اسی میں وہ بھی شامل ہے جو حس، مشاہدہ اور عادت کے خلاف ہو۔‘‘ عمر بن بدر الموصلی رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام کا تحقیق متن کے سلسلہ میں کیا منہج ہے؟ اس بارے عمر بن بدر الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سنده بل تعدوا إلى النظر في متنه فقضوا على کثیر من الأحادیث بالوضع وإن کان سندا سالما إذا وجدوا في متونها عللا تقضی بعدم قبولها. ‘‘ [3] ’’علما نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے چنانچہ انہوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے جن کی سندیں اگرچہ درست تھیں لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی تھیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع تھیں۔‘‘ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور اِمام سخاوی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ’’الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ‘‘میں اور اِمام سخاوی رحمہ اللہ نے فتح المغیث
Flag Counter