Maktaba Wahhabi

60 - 117
’’جب کوئی ثقہ اور مامون راوی ایسی روایت بیان کرے جس کی سند بھی متصل ہو تو اس کو ان امور کے پیش نظر رد کردیا جائے گا: ایک یہ کہ وہ تقاضائے عقل کے خلاف ہو۔ اس سے اس کا بطلان معلوم ہوگا کیونکہ شرع کا ورود عقل کے مقتضیات کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ عقل کے خلاف۔ دوسرا یہ کہ وہ کتاب اللہ کی نص یا سنت متواترہ کے خلاف ہو۔ اس سے معلوم ہوتا کہ اس کی کوئی اصل نہیں یا یہ منسوخ ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ اس سے یہ استدلال کیا جائے گا کہ وہ منسوخ ہے یا ا سکی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ صحیح اور غیرمنسوخ ہو اور امت کا اس کے خلاف اجماع ہو جائے۔ چوتھا یہ کہ ایسے واقعہ کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایسی بات کی کوئی اصل ہو اور تمام لوگوں میں سے صرف ایک راوی اس کو نقل کرے۔ پانچویں یہ کہ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتاً لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ یہ بھی قبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایسے واقعہ کو نقل کرنے والا صرف ایک آدمی ہو۔‘‘ اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں ابن الصلاح رحمہ اللہ کو امیر المومنین فی اصول الحدیث کامقام حاصل ہے۔ تحقیق متن کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’وقد یفهمون الوضع من قرینة حال الراوی أو المروی، فقد وضعت أحادیث طویلة یشهد بوضعها رکاکة ألفاظها ومعانیها. ‘‘ [1] ’’ کبھی محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث کے جعلی ہونے کا فیصلہ راوی یا مروی یعنی متن کو دیکھ کر کرتے ہیں، چنانچہ بہت سی طویل حدیثوں کے الفاظ ومعانی کی رکاکت (سطحیت) خود ان کے مَن گھڑت ہونے کی شہادت دیتی ہے۔‘‘ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کا موقف اِمام سخاوی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’وکثیرا ما یحکمون بالوضع باعتبار أمور ترجع إلى المروی وألفاظ الحدیث. ‘‘ [2] ’’ اکثروبیشتر محدثین جن علامات کی بنیاد پر حدیث کے موضوع ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اس کا تعلق مروی اور الفاظ ِحدیث سے ہے ۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف اِمام ابن قیم رحمہ اللہ کے حوالے ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نقدر وایت کے درایتی معیار کی وضاحت کے لیے
Flag Counter